ماہ صیام : انسانیت کی خدمت کا مہینہ: منا حنان

image

ماہ صیام رمضان المبارک اپنے دامن میں رحمتیں برکتیں عافیت اور مغفرت لئے آ پہنچا ماہ مبارک کا چاندنظرآتے ہی چہار سو ذکر واذکار توبہ و استغفار معافی ومناجات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کیونکہ سید دوعالم ﷺ نے اس ماہ مقد س کو معافی کا مہینہ قرار دیا اور احکام الٰہیہ کے مطابق بھی رمضان المبارک کو فضیلت اور مرتبت سے نواز ا گیا اور اسی ماہ مبارک میں کتاب لاریب نبی برحق ﷺ پر نازل کی گئی رمضان المبارک کے آغاز سے قبل کراچی میں مخیر حضرات کی جانب سے مستحقین میں راشن کی تقسیم کے دوران خواتین 6 فٹ اونچے جنگلے پر چڑھ گئیں پولیس کو لاٹھی چارج کر نا پڑا سینکڑوں خواتین زخمی ہوئیں ۔یہ رمضان المبار ک میں راشن کی تقسیم کے دوران پیش آنے والا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہر سال حسب روایت یہی کا م ہو تا ہے یہ لو گ تو وہ ہوتے ہیں جو اپنی سفید پوشی بچاتے بچاتے فاقوں تک پہنچ جاتے ہیں او ر پھر چارونا چار ہاتھ پھیلانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا ۔ مگر پھر بھی بہت بڑی تعداد ایسے طبقہ کی ہے جو دست سوال دراز کر نہیں پاتے اپنی عزت نفس اور خودداری بچانے کے چکر میں مشکلات و مصائب کے طوفان کے تھپیڑے سہتے رہتے ہیں۔ انتہائی معذرت کے ساتھ لکھنے پہ مجبور ہوں کہ غمزدہ انسانیت کے آنسو کون پو نجھے گا کیا ہمارے نبی آخرالزمان ﷺ تو عالمین کیلئے رحمت بن کر نہیں آئے تھے مگر ہم نے ان کی تعلیمات کو انتہائی بخل کا مظاہر ہ کرتے ہوئے مسلکوں گروہوں فرقوں قوموں میں بانٹ دیا ۔کون ہے جو عوامی مسائل اور عام آدمی کی مشکلات کا ذکر کر رہاہے ایک طرف ملتان میں خون میں پانی پلا کر معصوم بچوں کو لگایا جا رہا ہے ہمارے بچے ہسپتالوں میں ناقص ادویات اور ملاوٹ شدہ خون کی وجہ سے موت کے منہ میں جار ہے ہیں یہ کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں رمضان المبارک سے پہلے0 15کلو بِکنے والی کھجو ر رحمتوں بھرے مہینے کے آغاز کیساتھ ہی 300 روپے ہوجاتی ہے جس ملک میں دال ماش 80 روپے پاؤ بکے غریب آدمی وہاں کیا کھائے اور کیا کرے گا ۔ صاحبان منبر ومحراب اس معاملے میں خاموش کیوں ہیں کیا انہیں نظر نہیں�آرہا کہ دودھ میں پاؤڈر ملا کر بیچا جارہا ہے مرچوں میں ہم برادہ ملاتے ہیں ۔ بین الاقوامی دنیا نے ہمارے ساتھ تجارت اس لئے بند کر دی کیونکہ ہم دکھاتے کچھ اور ہیں بیچتے کچھ اور ہیں تھائی لینڈ نے ہمارے تجارتی معاہد ہ قبل از وقت یعنی پانچ سال پہلے جبر ی طو رپرختم کر دیا کیو نکہ ہمارے رائس ڈیلرز نے وہ گُل کھلائے کہ عالمی دنیا میں پاکستا ن کی نیک نامی خوب چمکی ہم سارا سال امریکہ مردہ باد یہودو نصاریٰ کا جو یار و غدار ہے کہ نعرے لگاتے ہیں مگر کتنے افسو س کی بات کہ ہمارے شہنشاہ رمضان المبار ک میں عجوہ 2200 روپے کلو بیچتے ہیں جبکہ جنہیں ہم مشرق و کافر کہتے ہیں جنہیں ہم شیطا ن اور نجانے کون کونسے برے القابات اور ناموں سے یاد کرتے ہیں وہی یہودی عیسائی رمضان المبار ک میں اپنی تمام مصنوعات پر اسی طرح سبسڈیز دیتے ہیں جس طر ح وہ کرسمس اور ایسٹر پر دیتے ہیں کیا یہ ہمار ا دہرا معیار نہیں کہ ہم یہود کی مصنوعات پر سبسڈی لیکر بھی اسے گالی دیتے ہیں اسی طرح ہندو سکھ حتیٰ کہ کیمونسٹ لادین لوگ بھی مذہبی تہواروں پر خصوصی رعایت دیتے ہیں ۔ ہندو قوم کی دیوالی کے موقع پر انڈیا کی حکومت خصوصی طور پر اپنے شہریوں کو خوشیوں سے لطف اندوز ہو نے کیلئے اقداما ت کرتی ہے اسی طرح کے انتظامات
رمضان پر بھی کئے جاتے ہیں تاکہ امیر غریب کمزور طاقتور یکساں طورپر خوشیوں میں شریک ہو سکے اور ہمارے ہاں تو گنگا ہی الٹ بہتی ہے ۔ ہمارے یہاں نام نہاد دینداررمضان المبارک کے آغاز سے قبل ہی ذخیر ہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں تاکہ اشیائے ضروریہ کہ نرخ بڑھائے جاسکیں ایسے مضبوط اور ظالم مافیا کو پو چھنے والا کوئی نہیں ہماری حکومتیں ہماری فوڈمنسٹری پرائس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کسی کوئی پرواہ نہیں ۔ اٹھارہ کروڑ عوام کیلئے پونے دوارب روپے کی خصوصی سبسڈی دیکر حکومت نے فرض پورا کردیا یوٹیلٹی سٹورز پر نہ چینی ہے نہ گھی ہے نہ دالیں اگر ہیں تووہ بھی بلیک میں بکیں گی اور ہمارے معزز تاجر حضرات رمضان المبارک کی رحمتوں سے خصوصی طور پر مستفید ہو نگے اور امتحان آزمائش ہمیشہ کی طرح غریب مزدور طبقے کا مقدر ٹھہرے گا ۔ ایسے بدترین حالات میں بھی اگر کوئی اس ریاست کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہے تو میں اسے مخبوط الحواس ہی کہوں گا ۔کیا آپ اسی کو اسلامی جمہوریہ پاکستا ن کہتے ہیں جہاں رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی مار کیٹوں سے ریٹ لسٹیں غائب ہو جائیں اورغنڈٖہ گردی طوفان بدتمیزی کا ایسا شرمناک کھیل شروع ہوجائے کہ 300 روپے کلوتک لیموں کا ریٹ پہنچ جائے۔ کوئٹہ کے شہری چیخ اٹھیں کہ ایرانی کھجور کا ریٹ 100 فیصد بڑھ گیا مگر کسی نے کوئی توجہ نہ دی ۔وزراء کی فوج ظفر موج سرکاری پروٹوکول کیساتھ فوٹوسیشن کیلئے رمضان بازاروں کے فیتے کاٹ رہی ہے جبکہ اندر کچھ نہیں رمضان بازار کے حالات عام بازاروں سے بھی بتر ہیں۔ افسو س کہ اس مقدس مہینے میں عبادات و نوافل سحر و افطار روزے کی فضیلت و اہمیت بیان کر نے والے صاحبان جبہ و دستار یہ کب بتائیں گے کہ انسانیت کے ساتھ محبت سب سے بڑی عبادت ہے ذخیرہ اندوزی اورناجائز منافع خوری کرنے والے کی نماز روزہ حج زکوۃ روزقیامت اس کے منہ پہ ماردیئے جائیں گے ۔یہ شب بیداریاں یہ آہ زاریاں یہ نوافل و استغفار تبھی قابل قبول ہو گا جب ہم مخلوق خدا کیلئے آسانیاں پیداکریں گے۔ جب ہم رمضا ن المبارک کو منافع کا مہینہ سمجھ کر لوٹ سیل لگا نے کی بجائے خالق کو خلق کی خدمت سے راضی کریں اس طرح ہماری عبادات بھی قبول ہو نگی اور ہماری دنیوی و اخروی نجات و بخشش کا سامان بھی پیدا ہوگا ۔اللہ کریم ہمیں اشفاق احمد کے اس قول پر عمل کر نے کی توفیق دے ۔ اللہ ہمیں آسانیاں دے تو آسانیاں تقسیم کرنے کی توفیق بھی دے آمین ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں