ترقی کا واحد ذریعہ:تحریر رانا ساجد سہیل

image

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کوجمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے۔پڑھو تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھیا یا انسان کو جو وہ نہیں جانتا تھا۔
برطانیہ میں ہر گھر میں تیز ترین انٹرنیٹ موجود ہے لوگوں کے پاس سمارٹ فونز بھی ہیں جو آج کل کمپیوٹرز اور لیب ٹاپ کا کام دیتے ہیں ہر شخص گھر میں، کام پہ اور سفر کے دوران ہر کہیں آتے جاتے پوری دنیا سے رابطہ میں ہوتا ہے اور آج کل سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ کا دور ہے آپ کو کوئی بھی معلومات چاہیے ہو آپ منٹوں میں بیٹھے بٹھا ئے نکال لیتے ہیں حتی کہ تقریبا ہر طرح کی کتب بھی آن لائن پڑھنے کے لئے مل جاتی ہیں لیکن پھر بھی برطانیہ کے ہر چھوٹے بڑے ٹاوُ ن میں ایک لا ئیبریری موجود ہے جس میں سینکڑوں یا ہزاروں کی تعداد میں کتابیں پڑی ہیں یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اتنی جدید سہولیات ہونے کے با وجو د بھی انھوں نے بے فضول اتنی لائیبریرئیاں بنائی ہوئی ہیں جس پہ سالانہ لاکھوں پاوُنڈز خرچ کئے جاتے ہیں۔ میری حقیر سی سوچ بوجھ میں تو اسکی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ یہ لوگ تعلیم کی اہمیت کو بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان ممالک پستی اور زوال کی طرف رواں دواں ہیں جبکہ مغرب مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔آپ اسلام کی بنیاد سے دیکھنا شروع کر دے جب حضور ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو جبرائیل ؑ نے کہا (اقرا: یعنی پڑھ) اگر بحثیت مسلمان ہم صرف اس ایک نقطہ کو سمجھ لیں تو شائد دنیا میں امت مسلمہ کودر پیش مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے کیونکہ جب رسالت کا آغاز ہی تعلیم و تربیت سے کیا گیا تو دنیا میں اس سے زیادہ اہمیت کسی چیز کی نہیں ہو سکتی، یہ علم ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو اللہ تعالی بار بار انسانو ں کو غور و فکر اور تعلیم و تربیت کی تلقین کرتا ہے آپ ﷺکی زندگی میں بھی بہت سی مثال ملتی ہیں جو تعلیم کی اہمیت ظاہر کرتی ہیں۔
حدیث مبارکہ ہے کہ، تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے
جب حضور ﷺ مکہ کی فتح سے ہمکنار ہوئے تو فرمایا جو غلام دس مسلما نوں کو پڑھنا اور لکھنا سکھا ئے گا اسے آزاد کر دیا جائے گا۔سبحان اللہ،
ْقرآن مجید میں بار بار تعلیم کا ذکر، احادیث کی روشنی اور آپ ﷺ کے قول و فعل سے علم کی اہمیت کا اندازہ با خوبی لگا یا جا سکتا ہے لیکن ہماری بدقسمتی کہ ہم کسی اور ہی طرف چل پڑے
پاکستان میں شرح خواندگی ساٹھ فیصد کے لگ بھگ رہتی ہے اور دنیا کی پڑھی لکھی قوموں کی فہرست میں ہمارا نمبر باعث شرم ہے کیو نکہ ہم سڑکوں اور ٹرینوں،بسوں سے یورپ اور مغرب کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن کاش یہی مقابلہ ہم تعلیم کے میدان میں کرتے جس پر ہماری بنیاد رکھی گئی ہے ہم کھوکھلی خستہ حالت بنیادوں پر عظیم و الشان عمارت کھڑی کرنا چاہتے ہیں جو بار بار دھڑل سے گر جاتی ہے ہم ہیں کہ بجائے بنیاد ٹھیک کرنے کے پھر سے اس پر میٹرو،اورنج ٹرین،سڑکیں اور موٹروے بنانے میں جت جاتے ہیں کیو نکہ جو سریا ہماری گردن میں ہے وہی ان کاموں پہ لگتا ہے۔
بجٹ آ رہا ہے محترم اسحاق ڈار صاحب ایک بار پھر پہلے تو ایک سال کی بین سنائے گے اور ان سے اور شاہی خاندان سے آنے والے بجٹ میں بھی تعلیم کی بہتری کی کو ئی امید نہیں کی جا سکتی کیو نکہ مسئلہ تو ترجیحات کا ہے۔ہم بطور رعایا شاہی خاندان سے گزارش کرتے ہیں کہ لوگو ں کی اچھی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں لوگ سڑکیں، نالیاں، بسیں، ٹرینیں خود بخود ہی بنا لیں گے۔بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتوں تک اچھی اور معیاری تعلیم کا بندوبست کریں،ملک میں بڑی بڑی لائبریرئیاں بنایی جائیں، ہر گا وُ ں میں ایک لائیبریری ہو تاکہ لوگوں کے اندر شوق پیدا کیا جائے، ٹیکنیکل ٹریننگ دی جائے، سکولوں، کالجوں اور یو نیورسٹیوں میں ریسرچ لیباٹرئیاں قائم کی جائے اور خطیر رقم مختص کی جائے تاکہ طلبہ اور سائینسدان نئی ایجادات کر سکے،تعلیم ہی ایک واحد ذریعہ ہے قوموں کی ترقی کا۔حکومت تو پہلے سے بجٹ تیار کر کے بیٹھی ہو گی لیکن پھر بھی لوگوں سے گزارش ہے کہ آپ اپنے حلقہ کے منتخب نمائندوں سے نالیاں، سولنگ مانگنے کی بجائے اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کا مطالبہ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں