وفاقی حکومت کے ادارے محکمہ شماریات کی رپورٹ پڑھتے ہوئے اپنے پرانے مرحوم دوست ڈاکٹر ظفر الطاف بہت یاد آئے۔ کسانوں کی ایک ہی آواز تھی جو پچھلے سال ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ مجھے اندازہ ہے‘ اگر وہ زندہ ہوتے تو اس رپورٹ کو پڑھ کر کتنے افسردہ ہوتے‘ جو شماریات ڈویژن نے اب جاری کی ہے۔ مجھے تو اپنی آنکھوں پر اعتبار ہی نہیں آ رہا کہ واقعی وہی پڑھ رہا ہوں جو لکھا ہوا ہے یا پھر یہ کوئی دھوکا ہے۔ ڈاکٹر ظفر الطاف سے زیادہ کسانوں سے محبت کرتے میں نے بہت کم لوگوں کو دیکھا ہے۔ میں انہیں کسانوں کے لیے تڑپتے دیکھا۔ ہم تو چلیں صحافی، کالم نگار لوگ بات کرکے ٹل جاتے ہیں، ظفر الطاف باقاعدہ طاقتور لوگوں سے لڑتے‘ اور اس کی سزا بھی پاتے۔ جب وہ فوت ہوئے تو بھی ان کے خلاف چند مقدمات چل رہے تھے کیونکہ وہ ‘ھلا‘ دودھ پروجیکٹ کو ختم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور حکمران خاندان کے ایک برخوردار کا دودھ کا پروجیکٹ اسی وقت تک چل نہیں سکتا تھا‘ جب تک وہ والٹن روڈ پر چلتے اس پلانٹ کو بند نہ کرا دیں۔ یوں ان پر ستر سال کی عمر میں پنجاب اینٹی کرپشن محکمے نے مقدمے درج کیے‘ اور اپنی وفات سے چند روز قبل وہ پیشی بھگت کر آئے تھے اور جج نے بتایا تھا کہ ان پر شدید دبائو ہے کہ ان کی ضمانت کینسل کر کے جیل بھیجا جائے۔
ایک دفعہ شوکت عزیز سے لڑ پڑے۔ ای سی سی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے بطور وفاقی سیکرٹری زراعت کہا کہ بلوچستان کے کسان مر رہے ہیں‘ ان کے لیے ریلیف پیکیج دیں۔ شوکت عزیز کو بھلا کسانوں سے کیا دلچسپی ہونا تھی۔ بولے: دیکھتے ہیں ڈاکٹر صاحب۔ ترنت جواب دیا: آپ کو اپنے وفاقی سیکرٹری کی بات پر یقین نہیں ہے‘ آپ کو کسی نجومی کی ضرورت ہے جو آپ کو بتائے گا اور پھر آپ کو یقین آئے گا کہ بلوچ کسان کی کیا حالت ہے۔ اجلاس میں شریک تمام سیکرٹریز حیران رہ گئے کہ کیسے ایک سیکرٹری نے وزیر خزانہ کو ایک طرح سے ڈانٹ دیا تھا۔ جب تک شوکت عزیز نے ان کی بات نہیں مانی، ڈاکٹر الطاف نہ ٹلے۔ یہ اور بات ہے کچھ عرصے بعد وہ ایک دفعہ پھر نوکری سے ہٹا دیے گئے تھے۔ مجال ہے انہیں اس پر کوئی افسوس ہو۔ غریب اور کسان کے لیے لڑنا کوئی ان سے سیکھتا۔ شاید اپنے دوست کی یاد میں کچھ زیادہ ہی کھو گیا ہوں۔ تین دفعہ وہ وفاقی سیکرٹری زراعت رہے‘ اور ہر دفعہ زراعت کی پیداوار بہت بہتر رہی۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں تو زراعت کا گروتھ ریٹ گیارہ فیصد تک جا پہنچا تھا۔
اس بار گروتھ ریٹ بڑھنے کے بجائے کم ہو گیا ہے۔ گروتھ ریٹ کا چار فیصد ٹارگٹ حاصل ہونا چاہئے تھا‘ یہ الٹا 0.19 فیصد پر نیچے جا گری ہے۔ وہ سیکٹر جو اس ملک کی ستر فیصد آبادی کی ضروریات پوری کرتا ہے، جو دیہات کی لیبر فورس کو کھپاتا ہے، جو ملک کی فوڈ سکیورٹی کا ذمہ دار ہے‘ اس کی یہ حالت ہو چکی ہے کہ پیسہ شہروں سے دیہات میں منتقل ہونے کے بجائے الٹا دیہات سے شہروں کو منتقل ہو رہا ہے اور یوں غربت بڑھ رہی ہے۔ اگر زراعت ترقی نہیں کر رہی تو سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہماری ترقی کی رفتار کیا ہے۔ امسال کپاس کی فصل تباہ ہو گئی تھی۔ کاٹن‘ جو پچھلے سال ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ بیلز (گانٹھیں) ہوئی تھی‘ اس کی پیداوار اس سال صرف ستانوے لاکھ بیلز پر آ گری ہیں۔ یوں ملک کے ٹیکسائل سیکٹر کو پچاس لاکھ کے لگ بھگ بیلز کم ملیں گی۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے ایکسپورٹ کا کیا حشر ہو گا۔ پاکستان‘ جو کبھی دنیا بھر میں کاٹن ایکسپورٹ کرتا تھا‘ اب باہر سے منگوا رہا ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر‘ جو ملک کی کل ایکسپورٹ کا 57 فیصد ہے‘ تباہ ہو رہا ہے۔
یہ بھی ایک عجیب دنیا ہے جہاں حکمرانوں کا کاروبار ترقی کر رہا ہے‘ منافع کما رہا ہے‘ جبکہ ان بادشاہوں کی رعایا کا کاروبار گھاٹے میں ہے۔ یوں وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں ایک کام انصاف سے ہوا ہے۔ پہلے کسان شکایت کرتے تھے کہ میاں صاحب خود کاروباری ہیں لہٰذا تاجر طبقے کو خوش رکھتے ہیں‘ لیکن اب لگتا ہے کہ تاجر طبقہ بھی ان سے ناخوش ہے‘ کیونکہ اس دفعہ سب کو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ حکمرانوں کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کسانوں کے لیے پیکیج دیا گیا تھا۔ وہ پیکیج بلدیاتی الیکشن سے پہلے کا تھا۔ اس کے بعد کوئی خبر نہیں آئی کہ اس کا کیا بنا۔ اب وہی کسان لاہور میں پولیس کی مار کھا رہا ہے۔ جسے اس وقت کھیت میں ہونا چاہیے تھا‘ وہ لاہور مال پر احتجاج کر رہا ہے۔ کوئی بھی ملک ہوتا تو ایسے اعداد و شمار کے بعد اس میں زرعی ایمرجنسی لگ چکی ہوتی۔ ایمرجنسی خاک لگتی‘ ملک کا وزیر اعظم آکسفورڈ سٹریٹ میں بیٹھ کر برگر کھا رہا ہے‘ اور اس کی باقاعدہ تصویریں ریلیز کی گئی ہیں۔ اسے کہتے ہیں زخموں پر نمک چھڑکنا۔
ویسے آپ کو لگتا ہے اس دفعہ محمد نواز شریف صاحب واقعی حکومت کرنے میں سنجیدہ تھے؟ زرداری کی بے تحاشہ کرپشن اور عمران خان کی الیکشن سے قبل ڈرون گرانے کی احمقانہ دھمکی کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے پاس ایک ہی آپشن تھا کہ وہ نواز شریف کے دروازے پر جاتے اور اس سے درخواست کرتے بادشاہ سلامت آپ ہی اقتدار سنبھال لیں۔ شہباز شریف اور چوہدری نثار کی جنرل کیانی سے رات کی تاریکی میں کی گئی بارہ خفیہ ملاقاتوں کا نتیجہ نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کی شکل میں نکلا‘ جنہیں اب سب بھگت رہے ہیں۔ جنرل کیانی کبھی نہ بتا سکے کہ آخر راتوں کو خفیہ ملاقاتوں کے کیوں شوقین تھے‘ اور وہ بھی اپوزیشن لیڈرز سے۔ عمران کو اپنے دماغ اور زبان پر قابو نہیں تھا تو زرداری‘ گیلانی صاحبان کو مال بنانے سے فرصت نہیں تھی۔ یوں بادشاہ بننا نواز شریف صاحب کی قسمت میں لکھا تھا۔ شاید چوتھی دفعہ بھی وہی وزیر اعظم بنیں کیونکہ یہ قوم اگر ان کے ملک سے چھ برس دور رہنے کے باوجود کوئی ایک کام کا بندہ نہ تلاش کر سکی‘ جو اس پر حکومت کرتا‘ تو اس پر کیا کہا جا سکتا ہے؟ اب بہت دیر ہو چکی۔ لگتا ہے‘ شریف خاندان ہی ہماری قسمت میں لکھا ہوا ہے۔ شریفوں کی اگلی نسل بھی ہمارے اوپر اقتدار کے لیے تیار ہے۔ وزیر اعظم ہائوس میں چلتا ہوا میڈیا سیل اس کام پر لگا ہوا ہے کہ صحافیوں، کالم نگاروں اور سیاسی مخالفین کے خلاف کیسی زبان استعمال کرنی ہے اور کیسا کیسا پروپیگنڈا کرنا ہے۔ جو نک نیم اس میڈیا سیل نے اپنے مخالف سیاسی جماعتوں کے لیڈروں، صحافیوں اور اہم فوجی افسران کے رکھے ہوئے ہیں‘ جن کی باقاعدہ خفیہ ریکارڈنگ کی گئی ہے، اگر وہ بتا دوں تو شاید آگ لگ جائے۔
ویسے نواز شریف صاحب اس دفعہ ایک ہی چیز میں سنجیدہ لگتے ہیں۔ لندن کے دورے اور عمران خان کے خلاف تقریریں۔ اس کے سوا ان کے پاس نہ کوئی موضوع ہے‘ اور نہ ہی کوئی ترجیح۔ پاکستان میں امریکی ڈرون کا حملہ ہوا ہے اور حکومت مکمل طور پر بے خبر یا لاتعلق نظر آتی ہے۔ لگتا ہے کہ یہ کام کسی اور ملک میں ہوا ہے۔ پوری دنیا پاکستان کے خلاف ہو چکی ہے کہ یہ دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے اور ہمیں کسی کی کوئی پروا نہیں۔ اور تو اور ایسے لوگ بھی ٹی وی پر بیٹھ کر ملک کی خود مختاری کا رونا رو رہے ہوتے ہیں‘ جنہوں نے دوبئی میں کروڑوں روپے کی جائیدادیں خرید رکھی ہیں۔
ان لوگوں کو کیا ہے‘ چاہے وہ زرداری ہوں، رحمٰن ملک، نواز شریف اور اسحاق ڈار یا پھر شاہد لطیف‘ جن کی جائیدادیں اور بچے باہر ہیں۔ اور تو زرداری دور میں میڈیا کو کھلانے پلانے کے لیے مشہور ڈاکٹر قیوم سومرو نے بھی 2003ء میں دوبئی میں خفیہ جائیداد خرید لی تھی‘ یا کسی نے خرید کر تحفہ دے دیا تھا۔ ان کے ذریعہ معاش کا مجھے تو آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ زرداری کی جی حضوری کے علاوہ کیا کرتے اور کہاں سے کماتے ہیں؟ موصوف آج کل ٹی وی پر سندھ کا مقدمہ لڑتے ہیں۔ ہنسی آتی ہے‘ جب وہ غریب سندھ کی بات کرتے ہیں۔
ابھی دوبئی لیکسں میں جو نام میں نے پڑھے ہیں، اس کے بعد مجھے کوئی شک نہیں رہا کہ اس ملک کے ساتھ وہی مخلص ہے جو غریب ہے اور وہ بس کی ٹکٹ نہیں خرید سکتا، دوبئی میں جائیداد خریدنا تو دور کی بات ہے۔ ایک وقت تھا پاکستانی دوبئی سے لوٹتے تھے تو امیر ہوتے اور رشتہ دار ان کا انتظار کرتے۔ اب دوبئی کے پراپرٹی ڈیلرز ہمارے پاکستانیوں کا انتظارکر تے ہیں کہ کب وہ جہاز سے نوٹوں کے بیگ کے ساتھ اتریں اور ان سے جائیداد خریدیں۔ آپ کو یقین نہیں تو نہ آئے لیکن یہ سچ ہے کہ آدھا سے زیادہ دوبئی پاکستانیوں نے ہی خرید لیا ہے‘ اور یہ اربوں ڈالرز پاکستان سے ہی نکال کر گئے ہیں۔
اپنے بچے اور جائیدادیں بیرون ملک محفوظ کرنے کے بعد یہ سب واپس پاکستان آتے ہیں۔ ہمارے اوپر حکمرانی کرتے ہیں۔ ہم انہیں اپنا مسیحا بنا کر سر پر بٹھاتے ہیں‘ انہیں ٹی وی ٹاک شوز پر عزت اور احترام کے ساتھ جگہ دیتے ہیں، ان کے بھاشن سنتے ہیں‘ اور سر دھنتے ہیں۔
میں یہ بات بتانا تو بھول ہی گیا کہ جہاں زرعی سیکٹر میں نیگٹو گروتھ ہوئی ہے‘ وہاں کنسٹرکشن کی صنعت‘ جس میں زیادہ تر سیمنٹ، سریا استعمال ہوتا ہے‘ ماشاء اللہ تیرہ فیصد گروتھ کے ساتھ اول نمبر پر رہی۔ ملک میں ہر طرف سریے کے استعمال نے عروج پایا ہے۔ میٹرو، انڈر پاسز، پلوں کا یہ فائدہ ہے کہ اس میں سریا سیمنٹ کا استعمال بڑھ گیا ہے۔
میرا لاہور میں پولیس کے ہاتھوں چھتر کھاتے اور آلو سڑکوں پر جلاتے کسانوں کو مشورہ ہے کہ وہ کھیت میں چاول، گنا، گندم، کپاس کی بجائے سریا اور سیمنٹ کاشت کریں‘ اور پھر دیکھیں کیسے وہ راتوں رات مالا مال ہوتے ہیں اور دوبئی میں اربوں ڈالرز کی جائیدادیں خریدتے ہیں!