پاکستان سے ہزاروں میل دور کئی سمندروں کے پار ایک ملک ہے ۔امریکہ اس کا نام ہے۔ ان دنوں اس کا صدر بارک اوبامہ نام کا ایک شخص ہے۔ چند روز قبل اس نے اپنی فوج کو تحریری طورپرحکم دیا کہ افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کا سراغ لگاکر اسے قتل کردیا جائے۔ ڈرون طیاروں کے ذریعے کسی شخص کی ہلاکت کے لئے ایسا حکم عموماََامریکی سی آئی اے کے لئے جاری ہوتا ہے۔ ملااختر منصور کے ضمن میں یہ حکم پوری امریکی وزارتِ دفاع کو دیا گیا۔
ریاستی فرائض اور شہری حقوق سے قطعی ناآشنا اور تحریری آئین وقانون کے تقاضوں کو کبھی خاطر میں نہ لانے والے ہمارے سیاسی اور دوسری نوعیت کے حکمران اور اشرافیہ نے ابھی تک اس پہلو پر غور ہی نہیں کیا کہ ملامنصور کی ہلاکت کا حکم امریکی سی آئی اے کے بجائے وزارتِ دفاع کو کیوں دیا گیا۔ اس اشرافیہ کی خوش فہمیوں اور حماقتوں کو بھاری بھرکم اصطلاحوں کے استعمال کے ذریعے چھپاکر ان کی مدح سرائی کرنے والے درباری ،ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوکر صرف قومی حمیت وغیرت کی داستانیں گھڑتے رہے۔ خضاب کی بالٹیوں میں سرڈال کر بالوں کو چمکانے اور بھڑکتے رنگوں کی ٹائیاں لگاکر ہمیں گمراہ کرنے والے یہ اُجرتی دانشور اور ماتمی خواتین وحضرات حب الوطنی کے ٹھیکے دار اور ترجمان ٹھہرادئیے گئے ہیں۔ میں ان کے وعظ سنتا ہوں تو ربّ سے اپنے وطن کی حفاظت کی فریاد کرنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔
بہرحال پاکستان کے کئی حوالوں سے ’’حساس ترین‘‘ کہلاتے ایک صوبے بلوچستان میں افغان سرحد کے قریب ہفتے کی دوپہر تین بجے کے قریب ایرانی سرحد سے روانہ ہونے والی ایک ٹیکسی کے اوپر ڈرون کے ذریعے ایک میزائل گرا۔ اس میزائل نے ٹیکسی، اس کے ڈائیور اور اس میں موجود ایک سواری کو بھسم کرکے رکھ دیا۔ سب کچھ تباہ ہوگیا مگر کسی نہ کسی طرح جائے وقوعہ کے قریب ولی محمد نامی کسی شخص کا پاسپورٹ جلنے سے بچ گیا۔اس پاسپورٹ کی بدولت ہمیں یقین کی حد تک گمان ہوا کہ ہلاک ہونے والی سواری کا نام ولی محمد تھا۔ وہ اکثر دوبئی جایا کرتا تھا۔ تعلق اس کا بلوچستان کے ایک قصبے قلعہ عبداللہ سے ہے مگر رہائشی کئی برسوں سے وہ کراچی کا تھا۔ ہفتے کی صبح وہ ایران میں چند دن گزار کر تفتان چیک پوسٹ کے ذریعے پاکستانی سرحد میں داخل ہوکر جانے کس سمت جارہا تھا۔ اپنی منزل تک پہنچنے سے قبل ہی مگر جاں بحق ہوگیا۔ اپنی ہلاکت تک وہ تقریباََ 450کلومیٹر کا سفر کرچکا تھا۔
اس شخص کی ہلاکت کے 7گھٹنے گزر جانے کے بعد افغانستان میں مقیم امریکی افواج کے سربراہ نے ہمارے آرمی چیف کو فون کیا۔ ایک اور فون امریکی وزیر خارجہ نے ہمارے وزیر اعظم کو بھی کیا۔ہمارے عسکری اور سیاسی حکمرانوں کو اطلاع دی گئی کہ ہماری سرحد میں جو ٹیکسی جھلس گئی ہے اسے ڈرون حملے کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ملااختر منصور اس حملے کی بدولت ہلاک ہوگیاہے۔ ہمارے وزیر اعظم یہ اطلاع وصول پانے کے بعد برطانیہ روانہ ہوگئے۔ ISPRنے بھی کوئی ٹویٹ جاری نہ کیا۔ بالآخر امریکی وزیر خارجہ ہی کو ٹی وی کیمروں کے سامنے آکر دُنیا کو اطلاع دینا پڑی کہ امریکی ڈرون نے ملااخترمنصور کو ہلاک کردیا ہے۔امریکی صدر اس وقت تک خاموش رہا۔ کئی گھنٹے گزارنے کے بعد خود کوملنے والی اطلاعات کی مؤثر تصدیق کے بعد اوبامہ نے ویت نام کا دورہ شروع کرنے سے قبل اس ملک کی سرزمین پر کھڑے ہوکر ’’مسٹرمنصور‘‘ کے مارے جانے کی تصدیق کردی۔
’’مسٹرمنصور‘‘ بقول امریکی صدر کے ہفتے کی دوپہر مارا گیا تھا۔ اس کی لاش پاکستان کے ’’حساس ترین‘‘ کہلاتے ایک صوبے بلوچستان کے ایک مقام سے دریافت ہوئی۔ منگل کی شام کو 6بج کر 12منٹ پر اپنی پریس کانفرنس کا آغاز کرنے کے وقت تک پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کو مگر اب بھی یقین نہیں تھا کہ ڈرون حملے کے ذریعے کسی شخص کی ہلاکت ہوئی۔ وہ تو یہ تصدیق کرنے کے لائق بھی نہیں تھے کہ جائے حادثہ کے قریب ولی محمد نامی جس شخص کا پاسپورٹ ملا ہے یہ اسی شخص کا تھا جس کی لاش دریافت ہوئی ہے۔
لاش کی شناخت نہیں ہوئی۔ البتہ حیران کن بات یہ بھی ہوئی کہ افغانستان سے ’’کوئی شخص‘‘ آیا۔ اس نے خود کو ہلاک ہونے والے کا قریبی رشتے دار بتایا۔ہم نے لاش اس رشتے دار کے حوالے کردی۔ یہ معلوم کئے بغیر کہ اس ’’رشتے دار‘‘ کے ہلاک ہونے والے ’’رشتے دار‘‘ کا نام کیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ طوطامینا والی کہانی۔ طلسم ہوشربا جیسی داستان۔ نانیاں ایسی داستانیں بچوں کو سلانے کے لئے سنایا کرتی تھیں۔ ہمارے وزیر داخلہ کی جانب سے منگل کی شب سنائی داستان میری معصوم قوم کو لاعلمی کے اندھیرے میں رکھنے کے لئے گھڑی گئی۔ ہماری اکثریت نے اس داستان کو بغیر کوئی سوال اٹھائے دل وجان سے تسلیم کرلیا۔ قومی غیرت کا شاید تقاضہ بھی یہی تھا۔
قومی غیرت وحمیت کی تھپکیوں کے ساتھ مدہوش ہونے کو ہر وقت تیار میں بدنصیب مگر چودھری نثار علی خان کے اس دعویٰ کو تسلیم کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ پاکستان کے ’’حساس ترین‘‘ کہلاتے ایک صوبے بلوچستان میں ایران کو افغانستان سے ملانے والی شاہراہ کے ایک مقام پر جو میزائل گراایک ایسے ڈرون سے پھینکا گیا تھا جو پاکستان کی فضائی حدود میں موجود نہیں تھا۔ چودھری نثار کے بقول یہ ڈرون ایک ’’ہمسایہ ملک‘‘ کی سرحدوں کے اندر ہی موجود رہا۔ اس ڈرون نے ہماری فضائی حدود میں داخل ہونے کی جرأت نہیں دکھائی تھی۔
چودھری نثار علی خان چکری کے راجپوت ہیں۔ وہ خود تو سیاسی ہیں مگر خاندان ان کا بنیادی طورپر فوجی ہے۔ میری ان سے دست بستہ گزارش ہے کہ چند گھنٹے بچاکر اپنے رشتے داروں کے ساتھ گزاریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ڈرون طیارہ کیا ہوتا ہے۔ یہ کیسے Operateکرتا ہے۔ آلاتِ حرب سے قطعاََ ناآشنا ہونے کے باوجود میں یہ دعویٰ کررہا ہوں کہ ڈرون طیارے اپنے نشانے پر میزائل پھینکنے سے کئی گھنٹے قبل تک اپنے ہدف کے سر کے عین اوپر کئی گھنٹوں تک مکھیوں کی طرح بھنبھناتے رہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے ہدف سے وہ آسمان کی بلندیوں میں کم از کم 40ہزار فٹ کی دوری پر ہوتے ہیں۔ جب اپنے ہدف کا تعین ہوجائے تو میزائل گرانے کے لئے یہ طیارہ اپنے نشانے سے 15یا 20ہزار فٹ کی بلندی تک نیچے آجاتا ہے۔
قوم کو حقائق بتانے کی جرأت نہیں تو خدارا قطعی جہالت پر مبنی داستانیں گھڑکر ہمیں گمراہ تو نہ کیجئے۔ سچ نہیں بول سکتے تو خاموش رہنے میں کیا برائی ہے۔