سر کار دوعالم ﷺ کے دور کی بات ہے جب صحابہ کرامؓ کا ،طے ، قبیلے کے ساتھ رَن پڑا جس میں لشکر توحید فتح یاب ہوا جس میں کچھ لوگ جن میں مردوخواتین جنگی قیدی بنا لئے گئے اور یوں جب یہ قیدی سید دوعالم ﷺ کی بارگاہ میں پیش کئے گئے تو ان میں ایک لڑکی جو ننگے سر آپ کے دربار میں لائی گئی توا س نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ میں اپنے قبیلے کے سردار حاتم کی بیٹی ہوں میرے والد کی سخاوت اور فیاضی کا فارس و عرب میں چرچا ہے ۔ میرے والد کے دربار کے بے شمار دروازے ہیں اور ایک سائل تمام دروازوں سے باربار آتارہے تو بھی میرے والد خالی نہیں لوٹا تے بلکہ خیرات کرتے رہتے ہیں ۔ سید دوعالم ﷺ نے جب اس لڑ کی کی گفتگو سُنی آ پ اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور اپنی چادرمبارک جسے کا لی کملی بھی کہا جاتا ہے اس غیر مسلم غلام جنگی قید ی کے سر پرڈال دی اور اپنے اصحابؓ کو حکم دیا کہ حاتم کی بیٹی کو باعزت باوقار اور ریاستی پروٹوکول کیساتھ اس کے ملک واپس پہنچایا جائے اور ساتھ بیت المال سے ہیرے جواہرات سمیت قیمتی تحائف بھی دیئے جائیں ۔ صحا بہ کرامؓ نے آپ کے حکم کی تعمیل کی اور اسے باعزت طریقے سے واپس بھیج دیا گیا ۔ حاتم کی بیٹی جب اپنے گھر پہنچی تو اپنے بھائی ابی بن حاتم سے مخاطب ہوئی کہ تم یہاں اپنی اور اپنے باپ کی سخاوت کی بات کرتے ہو میں ایک ایسے عفوودرگزر صلہ رحمی و سخاوت کے پیکر سے ملکر آئی ہوں جس کی سخاوت اس قدر وسیع اور فراخ ہے کہ وہ صرف جنگی قیدیوں کو آزاد ہی نہیں کر تا بلکہ میرے ننگے سر پر اس نے اپنی چادر اتار کر بھی ڈال دی اور ساتھ ہیرے جواہرات تحائف کے انبار اور ریاستی پروٹوکول کیساتھ مجھے واپس بھجوادیا۔ابی بن حاتم نے جب اپنی ہمشیرہ سے ملک حجازمیں جلوہ فرما نبی آخرالزماں ﷺ کے کمالات و تجلیات کا ذکر سُنا اخلاق حسنہ اور بدترین دشمنوں کیساتھ بھی معافی کے عمل کا تذکرہ سنا توا یک تڑپ اٹھی اور آپ ﷺ سے ملنے چلا آیا جب تاجدار انبیا ﷺ سے ہاتھ ملایا تو کریم آقا ﷺ نے ہاتھ چھوڑا نہیں بلکہ تھامے رکھا اور سرکار ﷺ نے فرمایا کہ ا ے ابی بن حاتم ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تو کلمہ پڑھ کہ اسلام کے دامن پناہ میں آجائے ابی بن حاتم نے فوری کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگیا ۔ یہ ساراواقعہ قرآن مجید کی سورت فاتحہ کی آخری آیت ،، غیرالمغضوب الیہم والضآلین : کی تفسیر میں درج ہے : یہ اسلام کے حقوق نسواں کی ایک انتہائی عام سی اور حقیقی جھلک ہے اب ایک جھلک نام نہاد جمہوری دور میں ایبٹ آباد کے علاقے میں پیش آنے والے ہولناک واقعے کی پیش کرنا چاہوں گا ۔ 23اپریل کو مکول کی ایک لڑکی صائمہ جوکہ عنبرین کی دوست تھی گھر سے بھاگ کر پسندکی شادی کر لی جس پر گاؤں میں بدمعاشوں نے ویلج کونسل کے ناظم پرویز کی قیادت میں ایک گروپ بنایا ہوا تھا جنہوں نے 28 اپریل کو ایک جرگہ بلایا جس میں سراج، شبیرا حمد، جاوید اختر، گل زرین ، افضل ، منیر ، محمد نصیر ، عمر زیب ، سعید ، گل زماں ، صفدر ، پرویز واجد عرف بھولا شامل ہیں ۔ مذکورہ افراد نے فیصلہ کیا کہ عنبرین جس نے اپنی سہیلی کی پسند کی شادی کروانے میں مد د کی کو عبرت کا نشان بنا یا جائے اس ساری صورتحال کا عنبرین کی ماں کو علم تھا لیکن وہ اس بدمعاش گروپ کے سامنے بے بس تھی اور خاموشی سے اپنی بیٹی کو ان درندوں کے حوالے کر دیا اس بد معاش گروپ نے لڑکی کو اپنی تحویل میں لیتے ہی بے ہوشی کی دوائی دے کر بے ہوش کیا پھر گلے میں اسی کا دوپٹہ ڈال کر موت کے گھاٹ اتار دیا تمام ثبوت مٹانے کیلئے عنبرین کو نصیر کی گاڑی میں بٹھا کر گاڑی سمیت جلانے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ اسی گاڑی میں بیٹھ کر صائمہ ایبٹ آباد آئی تھی اور پسند کی شادی کرلی تھی تیل چھڑک عنبرین کو مردہ حالت میں گاڑی سمیت جلا دیا گیا جبکہ اس کیساتھ دیگر کھڑی دوگاڑیاں بھی اس کی لپیٹ میں آئیں اور جل کر تباہ ہو گئیں تمام علاقہ اس گھناؤنے فعل سے آگاہ تھا لیکن ان غنڈوں کے آگے بولنے کی کسی میں بھی اخلاقی اور ایمانی جرات نہیں تھی ۔ اب یہاں پر میرا سوال ریاست کے مذہبی اداروں سے بنتا ہے پختونخواہ کے مدرسوں علماء و مشائخ سے ہے وہ بتائیں کہ نبی آخرالزمان ﷺ کو شادی کا پیغام حضرت خدیجہؓ نے بھیجا تھا یا نہیں کیا وہ پسند کی شادی تھی یا نہیں ۔مولانا فضل الرحمان اپنے والد مفتی محمود کی درویشی سادگی اور انسانیت کی محبت کا سبق بھول گئے بلکہ اس سے کہیں بڑ ھ کر وہ تو اس رہبرانسا نیت کادر س بھی بھول گئے جس کے دین کے وہ خود کو محافظ کہتے ہیں مولانا کو جمہوریت بچانے اور ہمیشہ ہر حکومت کا حصہ رہنے اور اقتدار کی ہوس میں مگن مولانا یادرکھیں کہ وہ اسلام کے نمائندے ہیں پختونخواہ کے منبرومحراب ومدارس مولانا کو مہان مانتے ہیں دین اسلام کے محافظ سمجھتے ہیں۔ اور یہ وہی علاقہ ہے جہاں عنبرین کی لاش جلی ہے جس کے پورے صوبے پر ان اذانیں اورجنازے پڑھانے والوں نے راج کیا اور مڈل پاس سکولوں کے ہیڈماسٹر لگوائے مگر انسانیت کی فلاح کیلئے کوئی کام نہیں کیا کبھی عوام کو اسلام کا پیغام امن اور انسانیت نہیں بتایا ۔جب خیبر پختونخواہ کے نام کی چناؤکی بات چل رہی تھی تب جماعت اسلامی نے یہ منطق پیش کی تھی کہ اس صوبے کے لوگ اسلام سے بے حد لگاؤ رکھتے ہیں اسی والہانہ لگاؤ کے پیش نظر سرحد کا نام دارالسلام رکھاجائے ۔ آج جماعت اسلامی بتائے کہ کیا یہی اسلامی تعلیمات ہیں چند مذہبی اوباشوں غنڈوں نے میر ے امن اور سلامتی کے دین کا چہر ہ مسخ کردیا ۔ میری ارض وطن کا اقوام عالم میں چہرہ داغدار بنا دیا ۔ کیا ہماری بہن بہوبیٹاں نہیں اگر ان میں سے کسی کیساتھ ایسا ہو تو کیا ہم نہیں بولیں گے کیا ہماری اخلاقی معاشرتی اور اسلامی ذمہ داری نہیں کہ ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں یہی جمعیت علمائے اقتدار ہے جو پختون بھائیوں کے ایمان اور دیانتدار ی کو ہمارے لئے آئیڈیل قراردیتے ہیں مگر جب یہی پختون پوست کاشت کرتے ہیں اپنی بہو بیٹیوں کو ذبح کرتے ہیں اور زندہ جلاتے ہیں تب یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ پختون روایات ہیں ۔ پختون روایات کا کیا مطلب اس کا مطلب پھر عرب بھی کہہ دیں کہ لڑکیوں کو زندہ جلانا ہماری روایت ہے لہٰذا ہم یہ روایت ترک نہیں کرسکتے ارے بھائی آپ نے تاجدار حرم کا کلمہ پڑھا ہے تو روایات اور احکامات بھی اسلام ہی کے لاگو ہونگے ۔ میں نے انسانی تاریخ میں آج تک ایسی بربریت و سفاکیت کی مثا ل نہیں دیکھی اگر کوئی ظلم کے خلاف نہ بولے تو وہ بھی ظالم کا ساتھی ہو تا ہے ۔ میں آج ڈی پی او ایبٹ آباد خرم رشید کوخراج تحسین پیش کرتاہوں جس نے شرافت اورمذہب کے لبادھے میں چھپے ان بھیڑیوں اور غنڈوں کے چہروں کو بے نقاب کیا۔ اس بے ضمیر بے غیرت بے حس معاشر ے کے منہ پر تھپڑ رسید کیا ۔اور میں مطالبہ کرتاہوں کہ ان سفاک درندوں کو عبرت ناک سزاد جائے جس طر ح ایک معصوم بے گناہ اسلام اور پاکستان کی بیٹی کیساتھ سفاکیت اور وحشت کا ہولناک کھیل کھیلا ۔ تحقیقاتی ادارے اور ڈی پی او خرم رشید یہ بات یادرکھیں اگر حسب سابق پولیس نے کمزور گواہوں اور ناقص تفشیش کے ذریعے کیس کو خراب کیا تو یقینناََ روزقیامت آپ بھی مجرموں اور قاتلوں کی صف میں کھڑے ہونگے :