ایک طرف مئی میں برطانیہ کے دارالحکومت اور بین الااقوامی شہر لندن میں مئر شپ کے الیکشن ہونے جا رہے ہیں تو دوسری طرف 23 جون کو برطانیہ ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ کرے گا کہ اسے یورپی یو نین میں رہنا ہے یا نہیں۔
ورلڈ بنک کی انفارمیشن کے مطابق برطانیہ دنیا میں کاروبار کے لحاظ سے چھٹے جبکہ امریکہ پانچویں نمبر پر ہے جو کہ سنگاپو ر ، نیوزی لینڈ اور چین سے پیچھے ہے جبکہ جرمنی کا پندرواں ، فرانس کا ستائیس اور اٹلی کا پنتالیسواں نمبر ہے یورپی یونین کا ایک ہی ملک ایسا ہے جو کاروباری اعتبار سے برطانیہ سے آگے ہے وہ ڈنمارک ہے جو کہ عالمی رینکنگ میں تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسائل یورپی یونین سے نہیں ہیں اگر برطانیہ کو بھی ڈنمارک کی طرح اور آگے جانا ہے تو اسے کاروباری شرائط میں کمی اور نرمی کرنا پڑے گی جیسا کہ جا ئیداد کی خریدو فروخت ، تعمیراتی کاموں کی اجازت اور بین الاقوامی تجارت کے قوانین میں نرمی۔ برطانیہ کی تجارت کا مرکزی رستہ بھی یورپی یونین سے ہی آتا ہے جسکی وجہ سے تجارتی اخراجات میں کمی اور کئی رکاوٹیں دور ہوتی ہیں جو کہ اور بھی کم ہو سکتی ہیں۔
یورپی یونین میں آنے سے برطانیہ کی تجارت میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے یورپی یونین کو چھوڑنے سے نہ تو برطانوی تجارتی منڈی میں کو ئی واضع شاندار مواقع پیدا ہو گے اور نہ ہی دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی معاشی منڈی چین کے ساتھ بلکہ مشکلات میں اضافہ ہی ہو گا۔پھر امریکہ اور یورپی یونین کے مابین سب سے بڑا تجارتی معاہدہ ( ٹی ٹی آئی پی ) ٹرانز اٹلینٹک ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ پارٹنر شپ جو کہ امریکی صدارتی الیکشن کے بعد اگلے مر حلے میں شامل ہو نے جا رہا ہے برطانیہ اس کے مذاکراتی عمل سے بھی باہر ہو جائے گا جو کہ ایک بڑا دھجکا ہو گاجسکا اثر بنیادی طور پر برطانوی معشیت پر ہو گا۔اسکے علاوہ بڑی تعداد میں نو جوان نسل یہاں کام کرنے کی غرض سے آتی ہے جو کہ ٹیکس کولیکشن میں اضافے کا سبب ہے۔
اگر برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہوتا ہے تو چند سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔
کیا یورپی یونین کے قوانین بر طانیہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں ؟
کیا یورپی یونین کو چھوڑنے سے تجارت میں اضافہ ہو جائےگا؟
اگر الگ ہو جاتا ہے تو کیا معاشی طور پر مستحکم رہ پائے گا ؟
یہ تمام سوالات بڑے پیچیدہ ہیں جن پر باریکی سے غور و فکر کی ضرورت ہے
اس حوالے سے بنک آف انگلینڈ اور سی۔ ای ۔ آر ( سنٹر آف یورپ یونین ریفارم) اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کر چکا ہے کہ برطانیہ کو یورپی یونین کے اندر ہی رہنا چاہیے اس کمیشن میں برطانیہ اور یورپ کے تجربہ کا تھنک ٹینک اور سابقہ پالیسی میکر شامل ہیں جس طرح 2008 کے بحران کے بعد فائننشل پالیسی کمیٹی بنائی گئی تھی جو کہ متعلقہ حکام کو نظام میں موجود خامیوں اور خطرات اور انکے حل کے بارے میں آگاہ کر سکے۔ اس میں تجربہ کار لوگوں کے مباحثے کی ضرورت ہے تاکہ عوام اسکے فوائد اور نقصانات سمجھ سکے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا برطانیہ یورپی یونین کے قوانین اور معاہدوں کی وجہ سے دوسرے ممالک سے پیچھے رہ گیا ہے اگر آپ ذرا سا غور کرے تو ایسا ہر گز نہیں ہے
ورلڈ بنک کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بر طانیہ میں اشیاء خردو نوش اور کام کی اجرت کے قوانین امریکہ اور مغربی یوروپین ممالک کے قریب تر ہیں ۔اگر برطانیہ یورپی یونین کو خیر آباد کہتا ہے تو سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ برطانیہ کا اسرو رسوخ بین الاقوامی طور پر بہت سے ممالک میں کم اور نا ہونے کے برابر ہو جائے گا۔