کاش ایسا نہ ہوتا

image

9 October 2015

کچھ دن پہلے چینی صدر پاکستان کے دورے پر تشریف لائے جو کہ بہت ہی خوش آئین بات ہے اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں ،عسکری اداروں اور عوام کی طرف سے انکا
بھر پور استقبال کیا گیا پاکستان اور چین کی دوستی پہلے بھی بہت مظبوط سمجھی جاتی ہے اور اکثر اوقات ہم اسکا عملی مظاہرہ بھی دیکھتے ہیں چینی صدر نے پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں
کے رہنماؤں سے بھی ملا قات کی اور پھر انھو ں نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں پہلی بار پاکستان آیا ہو ں لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ میں اپنے دوسرے گھر میں آیا ہو ں اور جب
چین پر مشکل وقت تھا تو پاکستان نے چین کی دل کھول کر مدد کی تھی پھر پاکستان اور چین کے درمیان مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے معاہدے بھی طے پائے جس میں گوادر کا منصوبہ ،بجلی کی پیداوار ،پاکستان کی دفاہی صلاحتوں میں اضافہ اور مختلف سڑکو ں پر سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے نہ صرف دونوں ممالک میں معاشی تجارت کو فروغ ملے گا
بلکہ چین کی مختلف ممالک سے تجارت میں بہت آسانیاں پیدا ہو جائیں گی ۔جب یہ سب کام ہو رہے تھے تو ایک ایسی خامی دیکھنے کو ملی کہ ہر کوئی کہنے لگا کہ کاش ایسا نہ ہوتا اور
وہ یہ تھی کہ وہاں پر صرف اور صرف وزیراعلی پنجاب ہی نظر آئے اور دوسرے صوبوں کے وزراۂ اعلی دیکھنے کو نہ ملے کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہاں پر پاکستان کے تمام صوبو ں کی نمائندگی
ہو تی تاکہ چھوٹے صوبوں کو احساس محرومی نہ ہوتی اور میاں نواز شریف کا یہ تصور کہ وہ وزیراعظم پاکستان نہیں بلکہ پنجاب کے وزیراعظم ہیں اور مسلم لیگ نواز پنجاب کی جماعت ہے کافی حد تک دور ہو جاتا لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہوا کیونکہ لگتا ہے کہ مسلم لیگ نواز چاہتی بھی یہی ہے کہ ان کو پنجاب کی نمائندہ جماعت کے طور پر ہی دیکھا جائے تاکہ وہ سیاسی
طور پر اس سے فائدہ اٹھا سکیں کیو نکہ وہ جانتے ہیں کہ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس میں نشستیں بھی سب سے زیادہ ہیں لہذا اگر وہ پنجاب سے جیت جائیں تو چند نشستیں
کسی دوسرے صوبے سے لیکروہ وفاق میں اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں اور اسطرح پنجاب میں ان کی اجارہ داری بھی قائم رہے گی کاش ان کو جا کر کوئی سمجھائے کہ اس سے پاکستان اور عوام کا کتنا نقصان ہورہا ہے کیو نکہ ان کو اگراس بات کی خود سمجھ ہوتی تو یہ لوگ ایسا کام ہی نہ کرتے ،اور تو اور اب انھوں نے نئی بننے والی سڑک جو خیبر پختونخواہ میں سے گزرنی تھی اسکو بھی متبادل روڈسے تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے جس سے کے پی کے کی عوام میں غمو و غصہ پایا جاتا ہے اور وہ لوگ چیخ چیخ کر پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہم لوگ
لاشیں اٹھانے اور دہشت گردی کا سامنا کرنے کے لئے ہی ہیں کاش کہ میاں صاحب کو پشاور سکو ل کے وہ ننھے منھے سے پھول ہی نظر آ جاتے جن کو بزدل دشمنوں نے ایک پل میں مسخ کر رکھ دیا اور ان بچوں کے والدین کا ویران آنگن ہی نظر آجاتا کاش میاں صاحب کو اس ماں کی آواز سنائی دیتی جو کہتی ہے کہ
بن تیرے اب تو گھر اداس ،اداس سا لگتا ہے
صبح کا سورج بھی اب تو غروب آفتاب سا لگتا ہے
حکومت کو چاہیے تھا کہ ان لوبچوں کی قربانیو ں کے صلے میں وہاں پر خصوصی طور پر سرمایہ کاری کی جاتی تاکہ وہاں کے لوگو ں کو روز گار ملتا اور انکی زندگیوں میں تھوڑی خوشحالی آتی اور
ہم انکی قربانیوں کی قیمت تو نہیں ادا کر سکتے لیکن زخموں پر نمک چھڑکنے کی بجائے مرہم ضرور لگا سکتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں