اب کیا ہو گا

image

وطن عزیز میں اتنے مسائل اور واقعات پیدا ہوتے ہیں کہ بند ہ ہر صبح اٹھ کر سوچتا ہے کہ اب کیا ہو گا ابھی دن گزرتے ہی رات کو سونے

سے پہلے پھر یہی سو چتا ہے کہ پتہ نہیں اب رات کو کیا ہو نے والا ہے ہو سکتا ہے جب صبح آنکھ کھلے تو حالات کچھ اور ہی ہو۔غریب آدمی کو یہ سوچ کر نیند نہیں آتی کہ صبح اٹھ کر وہ کام کہا ں کرے گا تاکہ اپنے بیوی بچوں یا بہن بھائیوں کے لئے روٹی روزی کا بندوبست کر سکے اور اس کے بر عکس امیر آدمی کو نیند کی گو لیاں کھا کر سونا پڑتا ہے کیو نکہ اس کی زندگی سے شائد سکون جیسے ختم ہی ہو گیا ہواس کی بھی وجہ ہےکہ جب ہم ٹیکس ادا نہیں کرے گے زکو ۃ نہیں دے گے تو آپ کو سکون سے نیند کیسے آئے گی،کرپشن کرنے والے رات کو سوچتے ہیں کہ کہیں پکڑے نہ جائے یا پھر کرپشن کا پیسہ کس طرح پاک صاف کر نا ہے، اپو زیشن والے سوچتے ہیں کہ حکو مت کو صبح کب،کہاں اور کن کن باتوں پر تنقید کا نشانہ بنانا ہے اور حکو مت والے سوچتے رہتے ہیں کہ کہیں انکی کو ئی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ پکڑی نہ جائے۔اب الطاف حسین کو ہی لے لیں آئے دن کوئی نہ کوئی بے تقی بات کرتا رہتا ہے کبھی کسی سیاسی جماعت کے خلاف تو کبھی پاکستان کے کسی عسکری ادارے کے خلاف پھر میڈیا پر تھوڑا شور مچتا ہے اور عوام بیچاری ابھی اسی کشمکش میں ہو تی ہے کہ اب کچھ ہو گا کہ اب کچھ ہو گا اسکے بعدالطاف حسین خود ہی تھوڑی دیر میں واپس میڈیا پر آکر اپنے الفاظ واپس لیتا ہے اور معافی بھی مانگ لیتا ہے اس کے بعد پھر کچھ نہیں ہو تا بس اتنے عرصے کو دوران عوام کے لئے درد سر ضرور ہوتا ہےملک ریا ض کو بھی طاقت اپنی مٹھی میں رکھنے کا کافی شوق ہے اس لئے وہ بھی آئے دن کو ئی نہ کوئی سکینڈل پیدا کرتا رہتا ہے کیو نکہ اس سے اسے بھی میڈیا اور خبروں میں کافی ٹائم ملتا ہے پھر ایک اور افسوس ناک صورت حال جو کہ سیلاب کی وجہ سے چترال اور دیگر علاقوں میں ہے جس سے قیمتی جانوں کا ضیاء ہو رہا ہے اور جو لوگ بچ جاتے ہیں وہ بھوک افلاص،بے روزگاری اور غربت سے مرتے ہیں کیو نکہ سیلاب کی وجہ سے انکے گھر بار سب تباہ ہو جاتے ہیں اس پر پہلے بھی لکھ چکا ہو ں کہ جب بھی سیلاب آتا ہے تو ہمارے سیاستدان کالا باغ ڈیم کا رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں اور ایک نئی بحث شروع ہو جاتی ہے لیکن اس کے بر عکس کو ئی متبادل ڈھونڈنے کی کو شش بھی نہیں کرتے جس

کا مطلب ہے نہ کبھی کالا باغ ڈیم بنے گا نہ ہی یہ سلسلہ رکے گا اور ایسے ہی لو گ مرتے رہے گے

اب دھاندلی کی تحقیقات کا فیصلہ بھی آنے والا ہے اور افواہیں ہیں کہ فیصلہ تحریک انصاف کے خلاف آ رہا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ

افواہ درست ہے تو تحریک انصاف جس نے کئی مہینوں تک ملک کا سب سے بڑا دھرنا دیا انکا مؤقف کیا ہے کیا وہ اس کو تسلیم کرتے ہیں یا پھر کو ئی اور راستہ اختیا ر کرتے ہیں اگر فیصلہ حکومت کے حق میں آتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ کسی نے منظم طریقے سے دھاندلی کی تو اس میں سب سے زیادہ قصور خود تحریک انصاف کا ہو گا کہ وہ اتنا شور مچاتے رہے دھاندلی پر اور کوئی ٹھوص ثبوت کیو ں نہیں پیش کر سکے انہو ں نے پینتیس پنچر کا کو ئی ذکر نہیں کیا نہ ہی سابق چیف جسٹس افتخار چو ہدری اور جسٹس رمدے کا کو ئی ذکر ہو ا،وہ ٹرک بھر کر ثبوت لے گئے اب کیا جج صاحبان کے پاس اتنا وقت تھا کہ وہ ان سب کا جائزہ لیتے ہر کو ئی جانتا تھا کہ اسکا کو ئی فائدہ نہیں یہ صرف اورصرف ردی کا ڈھیر ہے تحریک انصاف کے وکیل کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے دن سے ہی اسی بات پر زور دیتے کہ جناب حلقوں کے تھیلے کھولے اور انگوٹھوں کی مدد سے ووٹوں کی جانچپڑتال کی جائے اور سارا سچ سامنے آ جاتا لیکن افسوس کہ وہ اتنی بھاری فیس لینے کے باوجود بھی یہ کام نہ کر سکے اور یہ انکوائری کمیشن بنایا گیا تھا اور اس کو اختیارات دیے گئے تھے کہ وہ کسی بھی پاکستانی ادارے سے اس سلسلے میں مدد لے سکتا ہے لیکن افسوس کہ تحریک انصاف اس کو عدالتی کمیشن سے باہر نہ نکال سکی اب کیا ہو گا اور کیا نہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

اس کا فیصلہ تو دھاندلی کمیشن کا تفصیلی فیصلہ آنے کا بعد ہی ہو گا

اپنا تبصرہ بھیجیں