میرا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا۔ایک دن میں اپنے آفس میں بیٹھا تھا۔کچھ سیاسی شخصیات میرے کمرے میں براجمان تھیں۔ان کے جانے کے بعد میرا سیکٹری میرے کمرے میں داخل ہوا اور بولا”سر!ایک دس سالا بچی آپ سے ملنا چاہتی ہے۔صبح سے بیٹھی ہے۔میں جانے کو بول رہا ہوں مگر وہ ہے کہ جانے کا نام ہی نہیں لے رہی۔”میں نے وجہ پوچھی تو کہنےلگا “جناب! وہ کچھ بتا بھی نہیں رہی۔”میرے دل میں نا جانے کیابات آئی میں اٹھ کرباہر گیا۔وہ بچی میرے کمرے کے باہر پڑی کرسی پر بیٹھی تھی۔کسی گہری سوچ میں گم اور پریشان نظر آرہی تھی۔میں اسکی ساتھ پڑی کرسی بیٹھ گیااوراس سے پوچھا کہ “بیٹا کیا ہوا؟کیوں ملنا چاہتی ہو میرے سے؟اتنے میں اس نے ہاتھ میں پکڑا گلک مجھے تھما دیا اور بولی میری امی کو “Brain cancer”ہے۔ان کا علاج کروا دیں ۔یہ میں نے دو سو روپے اس مہینے میں جمع کیے ہیں مگر ڈاکٹر بولتے ہیں کہ اتنے پیسوں میں امی کا علاج نہیں ہو گا۔اس بات نے مجھے اندر سے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔میںں نے آفس ٹاءم کے بعد اس کے گھر چلنے کا وعدہ کیا۔
آفس ٹاءم کے بعد میں نے اس بچی کو اپنے ساتھ لیا اور اس کے گھر پہنچ گیا۔اس کی ماں ایک بےسدھ ایک چارپائ پر پڑی تھی۔گھر کی حالت بہت خراب تھی اسلیے میں وہاں وقت نہ رکا مگر اگلے دن اسکی ماں کو ایک ہسپتال میں داخلکروا کر اس کے علاج کے تمام تر اخراجات ادا کر دیے۔
یوں لوگوں کا مسائل لے کر ہمارے پاس آنا معمول کی بات تھی۔نہ جانے کتنے کوگ روذانہ یوں ہی بیٹھ بیٹھ کر آفس کے باہر سےہی واپس چلے جاتےتھے مگر میں اس بچی کےلیے یہ سب کیوں کر رہا تھا؟۰۰۰ اس کی ماں کے علاج کے دوران میں نے ڈاکٹر سے ایک دو مرتبہ اسکی ماں کی خیریت دریافت کی لیکن پھر ذندگی کی مصروفیات آڑے آگئیں۔ایک عرصے کے بعد وہ گڑیا اپنی اماں کے ساتھ میرے دفتر میرا شکریہ ادا کرنے کیلئے آئی۔ اس کی ماں صحت مند نظر آرہی تھی۔مجھے انہوں نے بہت سی دعائیں دیں۔مجھے بھی انہیں ٹھیک دیکھ کر روحانی سکون ملا۔جاتے ہوئےوہ لڑکی بولی”سر!میں بھی بڑی ہو کر آپ کی مدد ضرور کروں گی!!”اس کی اس معصوم سی بات پر میرے چہرے پر مسکراہٹ سی آگئی ۔
وقت گزرتا گیا۔میں نے پارٹی سے ریٹائرمنٹ اختیار کرلی اور ایک غیر معمولی ذندگی کی بجائے ایک معمولی ذنگی گزارنے لگا۔ایک دن میں اپنے جان سے ہیارے بڑےبھائی کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا کہ اچانک ایک ٹرک ہماری گاڑی سے ٹکرا گیا۔خدا کی قدت سے مجھے زیادہ چوٹیں نہیں آئیں مگر میرے بھائی کے سر میں شدید چوٹ لگی تھی۔وہ سڑک کے کنارے پر پڑے تھے۔ان کے سر سے بہت سارا خون بہہ رہا تھا۔انکو جلد از جلد تبی امداد کی ضرورت تھی ۔ہسپتال پہنچ کر پتہ چلا کہ آج ہسپتال کے تمام ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں آن یہاں کسی کا علاج نہیں کیا جا رہا۔
میں اپنے کو اپنے ہاتھوں میں تفپتا دیکھ کر اندر ہی اندر سے ٹوٹتا چلا جا رہا تھا۔اتنے میں میں ایک لڑکی جس نے سفید لیب کوٹ پہنا ہوا تھا،گلے میں sthethoscope لٹک رہا تھا ہمارے پاس آئی۔بھائی کا بغور معائنہ کرنے کے بعد ساتھ آئی ہوئی دو نرسوں کو انہیں آپریشن تھیڑر لے جانے کو کہااور “آپ دعا کیجئے گا” بول کر خود بھی اندر چلی گئی۔ 2گھنٹے بعد باہرئی۰۰چہرے سے ماسک ہٹاتے ہوئے بولی”سر! آپ کا patient خطرے سے باہر ہے”اس بات پر میری آنکھوں سے بلا اختیار آنسو جاری ہو گئے۔میں نے اس سے کہا کہ”میں تمہارا احسان کبھی نیں بھولوں گا “اس پروہ مسکرائی اوربولی “سر!میں نے کوئی احسان نہیں کیا میں نے تو اپنا وعدہ نبھایا ہے”میں اسی brain cancer والی کی بیٹی ہوں جس کا آپ نے علاج کروایا تھااگر کوئی غریب brain cancer کا مریض ہو تو مجھے ضرور بتائیےگا۔اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں نے اس کی ماں کا علاج کیوں کروایا تھا۰۰۰۰۰
اک اجنبی دیا لیےاس راستے پہ تھا کھڑا ہوا
جس راستے پہ چلتے ہوئے مجھے رات ہو گئی تھی
(رحمان)