ہماری زندگی کاگزشتہ سال کچھ انوکھا، کچھ نامانوس ،کچھ تکلیف دہ، کچھ مزے دار، کچھ پر لطف ،کچھ دل کے دکھ اور جلن، کچھ اداسی اور حرماں نصیبی، کچھ بے معنویت اور بدمزگی کے ساتھ کچھ مگر کتنا ہی کچھ…..کچھ ایسے ہی جذبات اور احساسات کا ملا جلا سا تاثر لیے 2015 رخصت ہوا اور خدا کی مہربانی سے ہمیں 2016 کا سورج دیکھنا نصیب ہوا ۔
گزشتہ سال ہم نے بہت کچھ کھویا بھی اور بہت کچھ پایا بھی۔ لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کیا ہم نے گزشتہ سال سے کوئی سبق حاصل کیاٖ؟کیا اس قوم نے اپنے فائدے اور نقصان،غلط اوردرست،حق اور با طل، قاتل اور مقتول ،ظالم اور مظلوم کا فرق جان لیا ہے۔ مجھے تو بظاہر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔
پاکستان کے اطراف واکناف کا سیاسی و عسکری نقشہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک طرف ہمسایہ ملک بھارت سے لفظی جنگ ذرا مدھم ہوئی ہے، تو دوسری طرف افغانستان میں قیام امن کی غیر یقینی صورت حال پیدا ہو رہی ہے ،تو ادھر داعشی عفریت کے پیٹ تلے عراق و شام ہیں، تو دم عدن تک تھپیڑے مار رہی ہے،ایک پنجہ ترکی میں گڑنے کو بیتاب ہے تودوسرا پاکستان میں جمنے کیلئے جگہ تلاش کر رہا ہے۔
اس ملک کی نام نہاد جمہوریت کا یہ عالم ہے کہ فوج ایک ہاتھ سے داخلی اور دوسرے ہاتھ سے خارجہ پالیسی سنمبھالے ہوئے ہے، تو درسری طرف سیاستدانوں نے مستعصم باللہ کا دربار سجا رکھا ہے اور بحث یہ چھڑ گئی ہے کہ NA122 کااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
ایک طرف’’ آج بھی بی بی زندہ ہے‘‘ کے نعرے لگ رہے ہیں تو دوسری طرف اشرافیہ کے پروٹول کی نظر ہوئی غریب والدین کی بے نظیر یعنی ’’بسمہ‘‘ جو ہسپتال نہ پہنچنے کے باعث زندگی بازی ہار گئی۔ ایک طرف HUMAN RIGHTS کے دعوے کرنے والوں کے بڑے بڑے بیان اور ایک طرف گجرات کے ایک گاوں میں زمیندار نے معمولی سی غلطی پر غریب والدین کے جوان بیٹے کو دونو ہاتھوں سے محروم کر دیا۔یہاں پرمیں حکام بالا سے سوال کرتا ہوں کہ کہاں گئے تمہارے وہ وعدے،وہ دعوے جو تم نے اس قوم سے کئے تھے ؟کیا یہ ہی وہ نیا پاکستان جس کا خواب تم نے اس قوم کو دکھایا تھا؟
یہ ملک جس کی بنیاد لاالہ اللہ ہے اس ملک کو تو کمزور کی طاقت بننا تھا،اسکو تو مظلوم کی آوازبننا تھا ،اسکو غریب کا سہارابننا تھا،اسکو تو اس نسل کا اعتمادبننا تھا، اسکو تواپنے بزرگوں کا وقار بننا تھا،اسکو تو امن کا گہوارہ بننا تھا،اسکو تو انصاف کا ادارہ بننا تھا۔مگر اسکے نام نہاد فرزندوں نے مکہ والوں کی طرح اسکا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔
اس ملک میں کسی کے جان،مال،اولاد،عزت و آبرو کی کوئی تکریم ہی نہیں۔غریب اپنی رسم جفا ادا کرنے کے بعد گم نامی کی موت مارا جاتا ہے اور اگر حکمران اشرافیہ کو نزلہ بھی ہو جائے تو دبئی کی فلائٹ فوراََ تیار ہو جاتی ہے۔اب تو کچھ لوگ اپنی کرپشن کو بچانے کے لیے رینجرز اختیارات کو بھی اپنی پسندیدہ حدودوقیود میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ لوگ جنہوں نے اس ملک کیلئے اپنی جانوں کا نظرانہ دیا اگر وہ اس ملک کی حالت دیکھیں تو ان کی روحیں یہ دیکھ کر تڑپ جائیں گی ،کہ یہاں اب بھی وہی نفسانفسی کا عالم…اتفاق کی بجائے نفاق…کسی کا ہاتھ کسی کا گریبان…وہی تضادات،و ہی اختلافات، وہی خرافات،و ہی الزامات جن کی آڑ ہر طرح کی دہشتگردی ہوتی ہے۔
ان سب حالات کو دیکھ کر میرے دل و دماغ سے برملا ایک سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہی ہے نیا پاکستان تو پرانے پاکستان میں کیا بری بات ہے؟؟
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ