نصف شب بیت چکی تھی مگر نیند کی دیوی آج اداس تھی بسترمخمل پر کروٹیں بدلتے بدلتے ایک آواز سنائی دی جو کسی کے رونے کی آوازتھی شہنشاہ فوراََ خواب آغوش سے باہر�آئے خوابگاہ کے باہرچاروں سمت دیکھا اور اور محل کے بیرونی حصے میں نکل پڑے اچانک بیرونی دیوار کی طرف یخ بستہ رات میں ایک شخص کو دیوار کیساتھ لگ کر روتے ہوئے پا یا حیرانی وپریشانی بڑھ گئی استفسار کیا تو بتا یا گیا کہ جناب کی رعایا میں سے ہوں شدید اضطراب میں ہوں کبھی کبھی رات کے وقت شاہی محل سے برامد ہو نے والا نوجوان میر ے گھر آتا ہے اور میر ی بیوی کو زدوکوب کر تا ہے اور مجھ پر بھی وحشیانہ تشدد کر تا ہے۔ مظلوم کی فریاد سن کر بادشاہ کی آنکھوں کے کنارے گیلے ہو گئے فوراََ بازوتھا ما اور شاہی محل کے اندر لے گئے تمام دربان خاص کو بُلا یا ور حکم صاد رکیا کہ مذکورہ شخص دن ہو یا رات کا کوئی پہر جس وقت بھی آئے بِلا تامل فوری میر ے پاس پہنچا دیا جائے اس کے ساتھ ہی شہنشاہ نے فریا دی کو پا بند کر دیا کہ جب بھی وہ شخص دوبارہ تمھارے گھر پر حملہ آور ہو تو اُسی وقت مجھے مطلع کرے فریادی شہنشاہ کی یقین دہانی سے مطمئن ہو کر رخصت ہو گیا چند دن بعد پھر وہی ظالم صفت انسان دوبارہ حملہ آور ہوا۔ وہ مظلوم اور بے سہاراگھر سے نکلا اور شاہی محل کی طرف دوڑ لگادی دربان نے سید ھا بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا رات کا پچھلا پہر تھا شہنشاہ معظم خدائے بزرگ و برتر کے حضو رسر بسجودتھے آواز سُنی۔ سلسلہ راز و نیاز منقطع کیا اور تلوار لیکر نکل پڑے گھر پہنچتے ہی شہنشاہ نے روشنی گُل کر نے کا حکم دیا جیسے ہی چراغ بجھا بادشاہ آگے بڑھا اور حملہ آور کا سر تن سے جدا کر دیا ۔ جیسے ہی سر دھڑ سے نیچے گرا والی ریاست نے چراغ روشن کرنے کا حکم دیا اور چہرے سے نقاب ہٹایا اور فوراََ سجدے میں چلے گئے سجدے سے اُٹھے تو اہل خانہ سے کہا کھانے کیلئے اگر کچھ ہے تو لا یا جائے سُوکھی روٹی اور پانی کا پیا لہ پیش کیا گیا بادشاہ نے پروردگا ر کا تشکر بجا لاتے ہوئے تناول کیا اور رخصت ہونے لگے تو فریادی نے شہنشاہ کا دامن پکڑ لیا اور آداب بجا لاتے ہوئے گو یا ہوا ۔ عالی جاہ مجھے دو باتوں کی سمجھ نہیںآئی ایک تو جب آپ گھر میں داخل ہوئے تو روشنی گُل کرنے کا حکم دیا ۔ سر اتارنے کے بعد آپ لا ش کے قریب گئے نقاب ہٹا یا اورفوراََ سجدے میں چلے گئے دوسر ی بات آپ نے نہا یت مشقت کیساتھ سوکھی ہوئی روٹی چبائی جبکہ اگر آپ اشارہ کریں تو انواع واقسام کے کھانے بیک جنبش جناب کے حضور پیش کردیئے جاتے ۔ اس وقت کے منصف اور شہنشاہ نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا جس دن تم اپنا مقدمہ لیکر میر ے پاس آئے اس دن سے میں نے کچھ نہیں کھا یا اور سخت اضطراب میں تھا کہ میرے ہوتے ہوئے اس طرح کی ظلم اور زیادتی کا ارتکاب کون کر سکتا ہے مجھے اندیشہ تھا اس طرح کی دیدہ دلیری سُلطان وقت کا بیٹا ہی کر سکتا ہے اس لئے میں نے آتے ہی حکم دیا ا ندھیرا کر دیا جائے تا کہ میں شفقت پدری سے جذبات کے ہاتھوں کمزور نہ پڑ جاؤں مگر جب میں نے اس وحشی کو انجام تک پہنچا دیا روشنی ہوئی میں نے چہر ہ دیکھا تو وہ میرے بیٹے کی بجائے کوئی اور تھا میں یہ دیکھتے ہی سجدہ ریز ہو گیا اور کہا کہ شُکر ہے میرے بیٹے نے یہ حرکت نہیں کی اگر وہ بھی کر تا تو اس کا انجام بھی یہی ہو تا ۔ قارئین یہ صدر وزیراعظم یا چیف جسٹس کوئی برٹش یا امریکن نہیں بلکہ ملت اسلامیہ کا فرزند سلطان معظم سُلطان محمو دغزنوی تھا ۔مگر آج اسلامی جمہوریہ
پاکستان اور کبھی دوقومی نظریے کا راگ الانپنے والوں میں دور دور تک اسلامی تعلیمات کی جھلک سے بھی نا بلد ہیں تھر کی خونخوار زمین معصوموں کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہی ہے یقین مانیں ۔ہمارے ملک میں اتنے بڑ ے بڑے واقعات ہو جاتے ہیں مگر24 گھنٹے نہیں گزرتے ہم اس سانحے کو بھول جاتے ہیں ہمارے دانشور تبصرہ نگار اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ کس گھڑی نیا واقعہ ہو گااور نئی سٹوری ملے گی پچھلے ایک ماہ کے دوران تھر میں غذائی قلت سے 150 کے قریب بچے مر گئے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان قائم ودائم ہے مٹھی کے ہسپتالوں میں نہ دوائیں ہیں ڈاکٹر نا بیڈ ہیں نا ہی صفائی کا انتظام مگر جیئے بھٹو اور جیئے بی بی اب بھی ہے ۔غذائی قلت سے ایک ماں نے یہ کہتے ہوئے خود کشی کر لی کہ افسوس میں نے بچے کو جنم تو دے دیا مگر اسے خوراک نہیں دے سکتی ۔ آج بڑے افسوس کیساتھ کہہ رہاہوں کہ اس کسمپرسی افلاس بھوک فاقہ کشی کے عالم میں ہماری تما م تر توانائیاں کا لی پیلی نیلی اورنج ٹرین پر ہیں ہم میڑوز کی سودے بازیوں میں مصروف ہیں میں اس بات سے قطع نظر اس منصوبے سے کو ن مستفید ہو گا یا کون خسارے میں جائیگا مگر ایک بات ضرور سوچنے والی ہے جس ملک میں نہ صحت ہو نہ تعلیم اور نہ روزگار نہ علاج وہاں ایسی عیاشیاں کہاں زیب دیتی ہیں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں مہنگائی سے خودکشیاں کررہے ہیں اور صاحبان اقتدا فخر سے کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے فضل وکر م سے پاکستان ترقی کر رہاہے کیا سڑکیں ،پُل ، یا بسیں چلا نا ترقی کا نام ہے ۔ ہماری حکومتی رٹ اس قدر مضبوط اور جاندار ہے کہ وزیر صحت کہہ رہی ہیں ہم دواساز کمپنیوں کو بُلا بُلا کر تھک گئے مگر اُن کے پاس ہمارے ساتھ مذاکرات کیلئے ٹائم ہی نہیں ۔ہم آج بھی راہداریوں کے پھڈے ڈال کر صوبوں میں نفر ت کی دیواروں کو مضبوط سے مضبو ط بنائے جارہے ہیں۔ ہم دہشتگردی کے موجد بھی خود ہیں خواجہ آصف نے سچ کہا کہ ہم ہاتھوں سے لگائی ہو ئی گرہیں دانتوں سے کھول رہے ہیں یادرکھیئے گا جس ملک میں عام آدمی کا بچہ تعلیم نہ حاصل کر سکے ریاست اپنے شہریوں کو انصاف دینے میں ناکام ہو ۔ عدالتیں غریب کوسستی دوائیں دینے کی بجائے طاقتور سرمایہ دار کو مال بنانے کیلئے سٹے آرڈر دیتی رہے پھر وہ معاشر ے نہیں چلتے ایسا نظام انصاف اپنے ساتھ سب کچھ لے ڈوبتا ہے۔ کیو نکہ فرمان مصطفی ﷺ کبھی رَتی برابر بھی آگے پیچھے نہیں ہو سکتا جو ریاست کمزور اور طاقتورکیلئے الگ الگ نظام انصاف تشکیل دیتی ہے پھر وہاں اٹامک ٹیکنالوجی یا فوج کا لاؤ لشکر بھی کامیابی کی ضمانت نہیں ہو سکتے۔
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں