جاپان دنیا کا واحد ملک ہے جس پر امریکہ نے ایٹم بم گرایا اس لحاظ سے امریکہ جاپان کا بد ترین دشمن ہونا چاہیے لیکن جاپان میں لوگ امریکہ مردہ باد یا مرگ بر آمریکہ کیو ں نہیں کہتے یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ہمیں غور کرنا چاہیے ۔ کسی نے جاپانی شہری سے پوچھا تھا کہ آپ امریکہ کے خلاف نعرہ بازی کیوں نہیں کرتے جس پر اس شخص نے مسکراہ کر جواب دیا کہ نعرہ بازی کمزور لوگوں کا شیوہ ہے جو عملا کچھ نہیں کر سکتے آج امریکی صدر کے دفتر میں پینا سونک کی ٹیلیفون اور سونی کا ٹیلی ویژن رکھا ہو گا جو کہ جاپان کے بنے ہوئے ہیں یہی ہماری جیت ہے اور یہی ہمارا بدلہ ہے۔
اسی طرح چین کے بانی موزے تن نے جب چین کی ترقی کی بنیاد رکھی تو اس وقت چین کے لوگ ان پڑھ اور نہایت ہی سست تھے اس نے لوگوں کو کہا کہ انسان کے پاس تین ایسی خوبیاں ہیں جو دنیا کی کوئی طاقت آپ سے چھین نہیں سکتی اور وہ ہیں علم، محنت اور ایمانداری اگر آپ علم حاصل کرنا چاہے تو آپ کسی بھی عمر میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اسی طرح کو ئی بھی آپ کو محنت سے نہیں روک سکتا اور اگر آپ ایمانداری سے کام کرنا چاہتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو کرپٹ نہیں بنا سکتی اسکے بعد ماؤ نے لوگوں سے کہا کہ آؤ علم حاصل کرو محنت کرو اور ایمانداری سے اپنا کام کرو تو دنیا کی کو ئی طاقت آپ کو ترقی سے نہیں روک سکتی اور موزے تن کی یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی ۔
چین کے بانی چئیرمین نے کبھی کسی ملک کا دورہ نہیں کیا 1950 میں برطانیہ اور امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک نے انکو دورے کی دعوت دی لیکن انھوں نے معذرت کر لی ان کے ساتھیوں نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن انکا کہنا تھا کہ اگر آپ اپنے اوپر انحصار کرے گے آپ۔ نے محنت کی اور قوم متحد رہی تو وہ وقت دور نہیں جب پوری دنیا چین کا دورہ کرے گی اور اپنے ساتھ خوشحالی لیکر جائے گی ۔ ماؤ کا ماننا تھا کہ امداد ، غیر ملکی سرمایہ کاری اور معاہدوں سے آپ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے ۔ چین کے چئیرمین کبھی ملک سے باہر نہیں نکلے انکا گھر ساڑھے تین مرلے میں تھا اور دنیا کے کسی بھی ملک میں انکا کوئی بنک اکاؤنٹ یا جائیداد نہیں تھی ۔ آج آپ دیکھ لیں کے موزے تن کی بات سچ سابت ہوئی پوری دنیا سامان کی خریدو فروخت کے لئے چین جاتی ہے لیکن اس کے لئے چینی باشندوں نے ایک قوم ہو کر محنت کی چین میں کسی شخص نے تیس سال تک چھٹی نہیں کی جس کے ہاتھ نرم ہوتے تھے اسکو چینی باشندہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ماؤ کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا معاشرہ ہے ہمارا اپنا ملک ہے ہمارے اپنے لوگ ہیں اگر ہم قوانین کی پابندی نہیں کرے گے تو کون کرے گا انھوں نے چین کو ایک معاشرے کا احساس دلایا جس کی وجہ سے چین میں جس نے چوری کی موت کی سزا پائی کوئی سیاست دان یا سرکاری ملازم کرپشن میں ملوث پایا گیا تو موت کی سزا سے نہ بچ پایا ۔
اس کے برعکس ہمارے وزیراعظم اور جتنے بھی سیاسی لیڈر ہیں آپ ان کو دیکھ لیں محترم وزیر اعظم جتنا وقت بیرونی دوروں میں گزارتے ہیں لگتا ہے کہ وہ پاکستان کے بھی دورے پر ہی آئے ہو ہیں باقی سب شان و شوکت اور مغلیہ رہن سہن تو اپنی جگہ۔ رائے ونڈ سے لیکر براستہ بھارت برطانیہ تک کاروباری ریاست کھڑی کی ہوئی ہے اور ملک میں لوگ بھوک افلاس اور بیماریوں سے مر رہیں ہیں 1957 میں امریکہ نے چین پر پابندیاں لگا دی تھی جس پر مؤزے تن نے امریکہ کو مخاطب ہو کر کہا تھا کہ اگر تم ہم پر ایٹم بم گراؤں گے تو یاد رکھنا ہم ستر کروڑ عوام ہیں اگر چالیس کروڑ مر گئے اور تیس کروڑ بھی زندہ بچ گئے تو یہ چینی باشندے تمہیں دنیا سے ختم کر دے گے ۔
پاک چائنہ راہ داری منصوبہ پر پاکستان میں ایک طوفان برپا ہے تمام صوبائی اور وفاقی حکومت کو لگتا ہے کہ شائد یہی ترقی کا آخری راستہ ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے اس سے شائد کسی کو دوبارہ حکومت کرنے کا راستی تو مل جائے لیکن ترقی ممکن نہیں ہے ۔چین جس کو آج ہم پاکستان کا دوست کہتے ہیں اور ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ چین پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن ہم بھول گئے ہیں کہ 1840 میں چین اور برطانیہ کے درمیان افیون کی تجارت پر جنگ ہو ئی تھی جسے جنگ افیون بھی کہا جاتا ہے برطانیہ نے 26 جنوری 1841 کو ہانگ کانگ پر قبضہ کر لیا اور 1843 اسے اپنی کالونی بنا لیا تھا لیکن چین نے اسے برطانوی کالونی ماننے سے انکار کر دیا اور دونوں ملکو ں میں جھڑپیں شروع ہو گئی جس سے تنگ آکر
بر طانیہ نے 1898 میں ہانگ کا نگ ننانوے سال کے لئے چین سے لیز پر لے لیا اور برطانیہ نے ہانگ کانگ کو ایسا بنا دیا کہ چین کے لئے قابل قبول ہی نہ ہو لیکن 1995 میں چین کے وزیر اعظم لی پنگ نے ہانگ کانگ کی واپسی کا مطالبہ کر دیا اور وہ مذاکرات کی خود سربراہی کر رہا تھا برطانیہ کی طرف سے گورنر کرس پیٹن مذاکرات کر رہا تھا وہ ہار بار کوئی نا معقول سی شرط رکھ دیتا کہ چین کو قابل قبول نہ ہو لیکن لی پنگ اسکی ہر شرط مان لیتا جس پر برطانیہ بڑا پریشان تھا آخر کار برطانیہ نے ایسی شرط رکھ دی کہ چین کو کبھی قبول نہیں ہو گی ۔ گورنر کرس نے مطالبہ کیا کہ ہانگ کانگ میں جمہوری نظام ہے اگر آپ پچاس سال تک اس نظام کو تبدیل چائنہ کے سوشلسٹ نظام کے ساتھ تبدیل نہ کرے تو ہم ہانگ کانگ آپ کے حوالے کرنے کو تیار ہیں لی پنگ نے مسکرا کر جواب دیا کہ انھیں یہ شرط بھی قبول ہے جیسے ہی گورنرک رے سے باہر گیا تو لی پنگ نے اپنی ٹیم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بر طانیہ نے اپنے پاؤں کاٹ لئے ہیں اس وقت ہانگ کانگ مشرق کا کاروباری مرکز ہے اور پچاس سال میں ہم ان سے جدید سرمایہ کاری اور کارپوریٹ کا طریقہ کار سیکھیں گے اور پچاس سال قوموں کی زندگی میں پانچ سال ہوتے ہیں ۔
ہم نے چین سے یہ نہیں سیکھا کہ ترقی امداد اور غیر ملکی سرمایہ کاری سے نہیں ہوتی بلکہ محنت ، علم ، یکجہتی اور ایمانداری سے ہوتی ہے جس دن یہ بات ہماری سمجھ میں آگئی اس دن ہم غیر ملکی قرضوں سے آزاد ہو جائے گے اور ملک بھی ترقی کی راہ پر ہو گا ۔