تحریر اختر بلوچ
کراچی کے سیاسی مقامات میں ایک اہم مقام مشتاق مرزا کا گھر تھا اور اب بھی ہے۔ مشتاق مرزا نوابزادہ نصراللہ خان کے کراچی میں دست راست تھے۔ وہ نواب صاحب کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے سندھ میں روح رواں تھے۔ یوں تو ان کا گھر نوابزادہ نصراللہ خان کی کراچی آمد کے بعد سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ بن جاتا تھا، لیکن اس گھر کی بنیادی حیثیت گھر کا سیاسی کردار تھا، خصوصاً حزب اختلاف کے حوالے سے۔
جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا اور بارہا جلد از جلد انتخابات کا وعدہ کرنے کے باوجود بھی انتخابات نا ہوئے، تو مشتاق مرزا کا گھر جنرل ضیاء الحق کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کا مرکز بنا۔ آئیے سب سے پہلے مشتاق مرزا کے مرزا ہاؤس کا پتہ جانیں اور ان کی جانب سے منعقدہ حلیم پارٹی کا احوال بھی۔ یہ حلیم پارٹی سیاسی ہوتی تھی اور اس بہانے نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان بھر کے سیاسی رہنما حلیم پارٹی میں شریک ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔
مرزا ہاؤس کا پتا 245/2/0 بلاک بی 6، پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی ہے۔ گو کہ اب ان کے اہل خانہ مرزا ہاؤس سے ڈیفنس منتقل ہوگئے ہیں، لیکن اب بھی وہ ڈیفنس کے ایک ہی گھر میں مشترکہ طور پر رہتے ہیں۔ مشتاق مرزا صاحب نے 1976 میں پی ای سی ایچ ایس کے گھر میں رہائش اختیار کی۔ اس گھر کی سب سے بڑی اہمیت اس حوالے سے تھی کہ یہ گھر 1976 کے بعد حزب اختلاف کے رہنماؤں کا مسکن رہا۔
مشتاق مرزا صاحب نوابزادہ نصر اللہ خان کی پاکستان جمہوری پارٹی سندھ کے صدر تھے اور ان کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے بشارت مرزا پارٹی کے صدر رہے۔ اس گھر میں منتقل ہونے سے قبل وہ گارڈن ایسٹ کے علاقے عثمان آباد میں رہائش پذیر تھے۔ عثمان آباد میں ہی انہوں نے حلیم کی دعوت کرنے کا آغاز کیا۔ پہلی دعوت میں حلیم کی دو دیگیں پکائیں، جو گھر ہی میں بنیں، اور ان کے بچوں نے تمام رات گھوٹا لگا کر پکائی تھیں۔
لیکن نہ مشتاق مرزا اور گھوٹا لگانے والوں میں شامل ان کے بیٹوں بشارت مرزا اور ارشد مرزا کو اس بات کا اندازہ تھا کہ حلیم کی یہ دعوت ایک سیاسی حلیم پارٹی بن جائے گی اور پاکستان کی سیاست میں بغاوت کی علامت ہو جائے گی۔ 1976 میں جب عثمان آباد کی رہائش ترک کر کے مشتاق مرزا کا خاندان پی ای سی ایچ ایس منتقل ہوا تو ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سیاسی تحریک کا آغاز ہوا ہی تھا۔
1977 کے انتخابات ہوئے۔ پی پی پی کو بے نظیر کامیابی حاصل ہوئی لیکن ان کی یہ نصرت بہت دیر تک قائم نہیں رہی۔ ضیاء الحق نے ایک عبوری حکومت قائم کی۔ اس حکومت میں پی ڈی پی کے وزراء بھی شامل تھے لیکن بعد میں ان دونوں وزیروں نے استعفے دے دیے تھے۔
مرزا ہاؤس کی نمایاں خصوصیت یہ رہی کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک کا آغاز ہوا تو اس وقت مرزا ہاؤس بھٹو کے خلاف کراچی میں ہونے والے اجلاسوں کا مرکز تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کے نوابزادہ نصر اللہ خان کراچی آکر یہیں ٹھہرتے تھے۔ حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے رہنما ان سے ملاقات کے لیے مرزا ہاؤس آتے تھے۔ ان رہنماؤں میں شاہ مردان شاہ پیر پگارا، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور کے علاوہ دیگر رہنماء بھی شامل ہوتے تھے۔
لیکن جب ضیاء الحق کے دور میں تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کا آغاز ہوا تو مرزا ہاؤس ایک بار پھر حزبِ اختلاف کا مرکز ٹھہرا۔ ایم آر ڈی کی تشکیل میں مشتاق مرزا نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ محترمہ نصرت بھٹو اور نوابزادہ صاحب کی ملاقات کا بندوبست بھی مرزا صاحب نے کیا تھا۔ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کو اس کی اطلاع ہوگئی تھی۔ بشارت مرزا کے بقول والد صاحب نے ہمیں بھی اس جگہ کے بارے میں نہیں بتایا تھا جہاں ملاقات ہونی تھی۔
ملاقات کے روز پولیس اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے مرزا ہاؤس کو مکمل طور پر اپنے گھیرے میں لے لیا تاکہ نوابزادہ اور نصرت بھٹو کی ملاقات کو کسی بھی طرح روکا جا سکے۔ دوسری جانب محترمہ نصرت بھٹو گھر سے برقعہ پہن کر خفیہ اہلکاروں کو چکمہ دے کر مقررہ مقام پر پہنچ چکی تھیں۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ نوابزادہ صاحب کو کس طرح گھر سے مقررہ مقام پر پہنچایا جائے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ گھر کے پرانے ملازم عبدالحق کو جو نوابزادہ کی خدمت پر مامور تھا اور اس کی جسامت بھی ان جیسی ہی تھی، کو نوابزادہ نصر اللہ کی شیروانی اور ترکی ٹوپی پہنا کر ایک کار کی اگلی نشست پر بٹھا دیا گیا اور بشارت مرزا خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئے۔
گاڑی جیسے ہی باہر نکلی، پولیس اور خفیہ اہلکاروں میں ہلچل مچ گئی۔ بشارت مرزا تیزی سے گاڑی کو شارعِ فیصل پر لے آئے اور رفتار بڑھا دی۔ شاہراہ فیصل پر گاڑیوں کا ایک اژدھام رواں دواں تھا اور پولیس کو پیچھا کرنے میں خاصی مشکل پیش آرہی تھی، لیکن آخرکار گورا قبرستان کے قریب موجودہ فنانس اینڈ ٹریڈ سینٹر کے قریب پولیس نے گاڑی کو گھیر لیا۔
اس دوران عبد الحق نے شیروانی اور ترکی ٹوپی اتار دی تھی۔ پولیس نے گاڑی کے دروازے کھولے تاکہ نوابزادہ صاحب کو حراست میں لیں لیکن ان کی بے بسی دیکھنے کے قابل تھی۔ انہوں نے نوابزادہ کو مرزا ہاؤس سے اپنے مخصوص حلیے میں روانہ ہوتے دیکھا تھا اور وہ وہیں سے گاڑی کا پیچھا کر رہے تھے۔ گاڑی راستے میں کہیں رکی بھی نہیں تو نوابزادہ کہاں گئے؟
بشارت مرزا کے مطابق پولیس اور خفیہ اہلکاروں نے ہمیں جانے کا اشارہ کیا لیکن ہمارا پیچھا کرتے رہے۔ ہم گھوم پھر کر دوبارہ مرزا ہاؤس آگئے۔ دوسری جانب ہمارے نکلتے ہی نوابزادہ صاحب مقررہ مقام پر پہنچ گئے اور یوں ان کی اور نصرت بھٹو کی ملاقات ہوئی اور ایم آر ڈی کی تشکیل کے حوالے سے تمام معاملات طے پا گئے۔
1985 میں جنرل ضیاء صاحب کی جانب سے کروائے جانے والے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ بھی مرزا ہاؤس میں ہوا تھا۔ جنرل مشرف نے جب نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو یہ طے پایا کہ اس کے خلاف بھرپور احتجاج طارق روڈ پر واقع اللہ والی چورنگی پر کیا جائے گا۔ مقررہ مقام پر روانگی کے لیے تمام پارٹیوں کے رہنماؤں کو مرزا ہاؤس سے روانہ ہونا تھا۔ متحدہ کا وفد بھی ڈاکٹر فاروق ستار اور کنور خالد یونس کی سربراہی میں مرزا ہاؤس پہنچا۔
نوابزادہ صاحب بھی مرزا ہاؤس میں موجود تھے۔ پولیس نے گھر کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ملازموں نے اطلاع دی کہ پولیس نے گھر کے باہر کھڑی ایک سوِک کار سے اسلحہ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور کار مالک کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہ گاڑی متحدہ کے کسی رہنما کی تھی، پولیس اپنے روایتی حربوں پر اتر آئی تھی اور متحدہ کے رہنماؤں کو گرفتار کر کے ان پر ناجائز اسلحے کا مقدمہ بنانا چاہتی تھی۔
اب پہلا مسئلہ یہ تھا کہ ان کو کس طرح گرفتاری سے بچایا جائے۔ مرزا ہاؤس کا ایک عقبی دروازہ بھی ہے۔ وہاں پر پولیس کی توجہ کم تھی لیکن کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ اچانک بنگلے کے داخلی دروازے پر ہنگامہ اور پولیس کی جانب سے مار دھاڑ شروع کر دی گئی۔ پتہ چلا کہ قومی محاذ آزادی کے رہنما معراج محمد خان نے جیسے ہی گھر سے نکلنے کی کوشش کی تو پولیس نے ہلہ بول دیا اور لاٹھی چارج شروع کر دیا جس کے نتیجے میں معراج محمد خان کا سر پھٹ گیا۔
بشارت مرزا کے بقول اس دوران موقع دیکھ کر ہم نے فاروق ستار، کنور خالد یونس اور ان کی اہلیہ کو عقبی دروازے سے باہر نکالا۔ وہاں سے وہ گھر کے قریب ریلوے ٹریک پر قائم کچی آبادی پہنچے جہاں سے وہ ایک اور گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔ 1990 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد احتجاجی حکمت عملی طے کرنے کے لیے پہلی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بھی مرزا ہاؤس میں ہوا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو مرزا ہاؤس کا باقاعدگی سے دورہ کرتی تھیں۔ اپنے دورِ حکومت میں وہ ایک بار آصف علی زرداری، بلاول اور بختاور کے ہمراہ دعوتِ حلیم میں شرکت کے لیے مرزا ہاؤس تشریف لائیں۔ بشارت مرزا نے ان کے اس دورے کے حوالے سے بتایا کہ وہ دوپہر کے فوراً بعد تشریف لے آئیں۔ ہمیں ان کی بحیثیت وزیرِ اعظم مصروفیات کا اندازہ تھا، اس لیے بغیر کوئی تاخیر کیے ان کے اہل خانہ اور عملے کو حلیم کھلائی گئی۔
محترمہ چونکہ میری والدہ سے بھی بڑی انسیت رکھتی تھیں اس لیے وہ ان سے ملاقات کے لیے گھر کے اندرونی حصے میں چلی گئیں۔ محترمہ کی آمد کے تقریباً ایک گھنٹے بعد آصف زرداری واپس لوٹ گئے۔ حلیم کی دیگیں تیار پڑی تھیں، لیکن مہمان تھے کہ آکر نہیں دے رہے تھے۔ ایک ملازم کو کہا کہ وہ باہر جا کر دیکھے کہ کوئی مہمان آ رہے ہیں یا نہیں، تو معلوم ہوا کہ پولیس نے پورے علاقے کو گھیرے میں لیا ہوا تھا اور شارعِ فیصل پر ہمارے گھر آنے والے مہمانوں کو روک دیا جاتا تھا یا واپس لوٹا دیا جاتا تھا۔
ہماری کیفیت یہ ہوگئی کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ ہمیں محترمہ کی سکیورٹی کا بھی احساس تھا لیکن جن مہمانوں کو دعوت دی گئی تھی، ان کو پیش آنے والی زحمت کا بھی ادراک تھا، لیکن کیا کرتے۔ محترمہ اس روز تقریباً چار گھنٹے تک مرزا ہاؤس میں رہیں اور ہماری جان پر بنی رہی۔ جب محترمہ روانہ ہوئیں تو ہم نے سکھ کا سانس لیا اور مہمان دعوت میں آنے لگے، حلیم کی وہ دو سو دیگیں جو شام تک ختم ہو جاتیں تھیں، وہ رات گئے تک کھلائی جاتی رہیں۔
مرزا ہاؤس کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما جو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے، مرزا ہاؤس میں ایک ہی ٹیبل پر بیٹھ کر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ 90 کی دہائی میں جب اس وقت کے مہاجر قومی موومنٹ اور حالیہ متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی، تو یہ مرزا ہاؤس ہی تھا جہاں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین اور پروفیسر غفور کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لیے مکالمہ ہوا تھا۔
مرزا ہاؤس کا دورہ کرنے والے معروف سیاسی رہنماؤں میں غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل اور نواب اکبر بگٹی کے علاوہ بے شمار سیاست دان شامل رہے ہیں۔ مرزا ہاؤس میں حلیم پارٹی میں شرکت کے لیے آنے والوں میں پی پی پی بعد ازاں این پی پی کے رہنما اور نگراں وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی بھی شامل رہے ہیں۔ مرزا ہاؤس میں جب ان کی بڑی صاحبزادی کی شادی ہوئی تو نکاح پڑھانے والے مولانا مفتی محمود تھے جبکہ بشارت مرزا کا نکاح مولانا شاہ احمد نورانی نے پڑھایا تھا۔
بشارت مرزا کا کہنا ہے کہ جب بڑی بہن کی شادی ہوئی تو اس موقع پر قوالی کی محفل کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس موقعے پر پیر پگارا نے والد صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ محفل موسیقی کے لیے انہیں چاہیے کہ اس وقت کی ایک معروف خوش شکل غزل گائیکہ کو مدعو کریں۔ پیر صاحب کا کہنا تھا کہ محفل میں شرکت کے لیے مفتی محمود کو میں لے آؤں گا، نوابزادہ نصر اللہ خان کو تم لے آؤ، لیکن مرزا ہاؤس میں محفلِ غزل کی روایت نہیں تھی اس لیے یہ بات ایک خوشگوار یاد کی صورت میں باقی ہے۔
مرزا ہاؤس چونکہ کراچی میں حزبِ اختلاف کا سب سے بڑا سیاسی ڈیرہ تھا، اس لیے اس گھر کو اتنی بار سب جیل قرار دیا گیا کہ بشارت مرزا کو گنتی یاد ہی نہیں۔ بشارت مرزا کہتے ہیں کہ جب گھر کو سب جیل قرار دیا جاتا تھا تو مشتاق مرزا کی نقل و حرکت محدود ہوجاتی تھی اور رشتے داروں کے آنے پر بھی پابندی ہوتی تھی۔ شروع شروع میں تو ایسی صورت حال میں شدید بے بسی، لاچاری، بے کسی اور غصے کی کیفیت ہوتی تھی، لیکن آہستہ آہستہ اس کے عادی ہوتے چلے گئے۔ گھر کے باہر ڈیوٹی پر متعین پولیس اہلکار بھی اپنے سے ہی لگنے لگتے اور ان کی چائے اور کھانے کا انتظام بھی ہمیں ہی کرنا پڑتا تھا۔
اس گھر کی سیاسی یادوں کا ایک باب اس وقت ختم ہوا جب 5 جولائی 2003 کو مشتاق مرزا صاحب کا انتقال ہوا۔ اسی سال ستمبر میں نوابزادہ نصراللہ خان بھی اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اب مرزا صاحب کا خاندان اپنے اس سیاسی و تاریخی گھر سے کوچ کر کے ڈیفنس منتقل ہو گیا ہے۔ بشارت مرزا اب بھی سیاسی طور پر اتنے ہی فعال ہیں جتنا کہ ان کے والد تھے۔ اب بھی وہ سیاسی حلیم کی دعوت کا انعقاد کرتے ہیں لیکن ان دعوتوں میں اب وقفے آنے لگے ہیں، وہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
وے صورتیں یا الہیٰ کس ملک بستیاں ہیں
جن کے دیکھنے کو اب آنکھیں ترستیاں ہیں