16دسمبر2014 ء منگل کی صبح حسب معمول ماؤں نے اپنے بچوں کو پیاراور لاڈ دعاؤں کیساتھ تیارکرکے سکول کیلئے رخصت کیا ابھی والدین بچوں کو سکول چھوڑ کر گھر پہنچے ہی تھے کہ وقت کی رفتار بڑھی اور تھوڑی ہی دیر بعد صبح دس بجکر بیس منٹ پر ورسک روڈ پر واقع آر می پبلک سکول پشاور کا آڈیٹوریم ہال اس وقت گولیوں کی گونج سے لرز اٹھاجب نو یں اور دسویں جماعت کے طلباء کو الوداعی پارٹی کے موقع پر سیلف ڈیفینس ٹریننگ دی جارہی تھی ۔6 سے 7 دہشتگرد ہال میں داخل ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے وطن عزیز کا قیمتی اثاثہ ابدی نیند سو چکا تھا جن میں کئی مستقبل کے سائنسدان انجینئرز سیاستدان فنکار ادیب کھلاڑی اور قلمکار سب موجود تھے چند ہی منٹوں بعد پاک فوج کے کوئیک رسپانس فورس کے دست نے پہنچ کر محاصر ہ کرتے ہی آپریشن شروع کر دیا جس کے دوران فورسز نے دہشتگردوں نے بھرپورڈٹ کر مقابلہ کیا جس کے بعد دو دہشتگرد ہلاک اور ایک زخمی ہوا اور وہ زخمی دہشتگرد ایک کلاس روم میں داخل ہوا اور خودکودھماکے سے اڑا لیا جس سے کئی ننھے فرشتے میٹھی نیند سوگئے دلیری و جوانمری کی یہ داستان اس قدر رقت انگیز ہے کہ اس کو جس پہلو سے بھی دیکھا جائے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اگر معصوم بچوں کی بہادری اور دلیر ی دیکھی جائے تو وہ بھی قابل رشک ہے اگر دہشتگردوں کی سفاکیت اور بے رحمی دیکھی جائے تو وہ انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے اگر فورسز کی فوری طور پر پیش قدمی دیکھی جائے تو وہ بھی میرے ون کے سپاہیوں ہی کا طُرہ امتیاز ہے اگر میں آرمی پبلک سکول پشاور کی اساتذہ اسٹاف مردوخواتین کا ذکر کروں تو مجھے الفاظ بھی تنگی ء داماں کا شکوہ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں آج ایک سال گزرنے کے بعد بھی پر نسپل طاہر قاضی کو کیسے بھول سکتا ہوں جو حملے کے وقت سکول کے اندر موجود تھیں اور آرمی کے آنے کے بعد پرنسپل صاحبہ کو باہر نکال لیا گیا میں آج اُس عظیم بہادر نڈردلیر خاتون کی برسی پر سلام پیش کر تا ہوں جس نے جرات وقربانی کی وہ لازوال تاریخ رقم کی اگر اسے انسانیت بھی دیکھے تو انسان پہ رشک کر اٹھے طاہر ہ قاضی کو جب دہشتگردوں کے چنگل سے بحفاظت نکال کر باہر لایا گیا تو اس عورت کے دل میں بھی ممتا کا درد جاگ اٹھا اور سیکورٹی واے اس کو روکتے رہ گئی مگر طاہرہ قاضی یہ کہتے ہوئے آرمی سکول میں دبارہ داخل ہو چکی تھیں ان ننھے پھولوں کو کسی ماں نے جنم دیا ہے اور میں بھی ایک ماں ہوں ایک ممتا کبھی یہ ر برداشت نہیں کر سکتی کہ اس کے سامنے اُس کے جگر کے ٹکڑے پر کوئی آنچ آئے میں ان دہشتگردوں کو آخری دم تک مقابلہ کرونگی اور ایک ماں اپنے بچوں کو کبھی تنہا ء نہیں چھوڑ ے گی اور پھر چشم تصور نے وہ منظر بھی دیکھا جب آپر یشن ختم ہوا تو ایک نا قابل شناخت لا ش ملی جو جلی ہو ئی تھی آرمی سکول کے احاطے سے اُسے جب ہسپتال لا یا گیا تو لاپتہ افراد کے وہاں موجود ورثاء میں طاہر ہ قاضی کے اہل خانہ بھی موجو دتھے جب انہیں ایک جلی ہو ئی نا قابل شناخت لاش دکھائی گئی تو اپنے خون کی خوشبو نے ورثاء کو بتا دیا کہ یہی ہماری طاہر ہ قاضی ہے یہ وہ اٹھارہ کروڑعوام کی محسن دلیر اور بہادر ماں ہے جو تنہا اور نہتی دشمن کے آگے سینہ سپر ہوگئی اور پھر عینی شاہدین کہتے ہی طاہر ہ قاضی کو دہشتگردوں نے جلا دیا او راس نے بڑی خوشی سے موت کو یہ کہتے ہوئے گلے سے لگا یا تھا کہ میں اپنے سکول کے ننھے فرشتوں کے سہمے ہوئے چہر ے دیکھ آئی تھی جس کے بعد اپنے ننھے پھولوں کو دہشتگردوں کی گولیوں کے آگے تنہاء چھوڑ دینا بزدلی تھی اور میں نے اپنے بچوں کیساتھ جام شہادت نوش کرکے ہمیشہ امر ہونے کو ترجیح دی آج میں اُس سحر افشاں ٹیچر کو بھی تہہ دل سے سلام عقیدت پیش کرتاہوں جس نے بھاگنے کی بچائے دروازہ بند کرکے بچوں کیساتھ دہشتگردوں کا مقابلہ کرنے کو مقدم جانا اور پھر وہی ہو بند دروازہ ٹوٹا چٹخنی ٹوٹنے کی آواز کا آنا تھا کہ سہمے ہوئے بچوں کے دل ڈول گئے اسلحہ سے لیس درندے نے معصوم بچوں پر گولیاں برسانے کی ناپاک جسارت کی تو سحرافشاں پاکستان کی بہادر بیٹی میر ی پختون بہن اس سفاک کے آگے دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں ظلم اور بربریت میں چنگیزخان اور ہلاکو خا ن سے بھی بڑھ کر لعنت کے حقدار سفاک نے سحرافشاں کے اوپر پٹرول چھڑ ک کر آگ لگادی اور بچوں پر گولیاں برسانی شروع کردیں میں وہ 16 دسمبر کی شام کیسے بھول سکتا ہوں جب ننھے ننھے معصوم پھولوں کی ڈائریاں اور اُن پر خون کے چھینٹے ۔ خون آلود کتابیں آرمی کی گاڑیوں میں جاتے ہوئے سہمے ڈرے اور خوفزدہ نو خیز پھول ماؤں کا دیوانہ وار آرمی پبلک سکول کی طرف بھا گنا وہ چیخ و پکا ر وہ آہ بکا وہ سسکیوں کا شور وہ نالہ وہ شیوہ وہ دل دہلادینے والے مناظر آج بھی وہ اسی طرح آنکھوں کے سامنے ہے جب معصوم بچے میڈیا پہ بتا رہے تھے کہ ہم نے روشندانوں ڈیسکوں ٹیبلوں کرسیوں کے نیچے چھپ کر جان بچائی کئی بچے تو اس قدر سہم چکے تھے کہ آرمی نے انہیں الماریوں روشندانوں کھڑکیوں کیساتھ چِپکے ہوؤں کو الگ کیا تواُن کی زبانیں ساکت ہوچکی تھیں کئی بچے تو جان جانِ آفرین کے سپردکرچکے تھے ۔ یہی شہداء کے مقد س خون کے چھینٹے پختونوں کے شاعر برادرم عاطف توقیر کے وجودپر پڑے تو اس کی قلم میں کیا سوز اور درد پنہاں ہے ذرا دیکھئے
میں بھی اس ارض پر آشوب کا با شندہ ہوں
جس پہ ہر روز قیامت سی گزرجاتی ہے
جس کے مہوش گل وگلزار ہیں اب نو حہ کناں
جس کی گلیاں ہیں کہ بارود کی بو آتی ہے
شوخی رنگ گلستان سے دمکتے چہرے
اب کسی خوف مسلسل سے ہیں مرجھائے ہوئے
مستی رقص ثقافت پہ جو درخشندہ تھیں اب کے بمبار درندوں سے ہیں گہنائے ہوئے
روز ایک صبح سناتی ہے میرے لوگوں کو
اک کہانی جو تاریخ سے ماخوذنہیں
روز اک شام غریباں کا سماں ہو تا ہے
خوف ایسا ہے کہ کوئی یہاں محفوظ نہیں
قافلہ صبح درخشاں کیلئے نکلا تھا
پر اسے گھیر لیا رات کے قزاقوں نے
اب نہ کوئی داد رسن ہے نہ داد رسی
وقت کو بھینچ دیا مذہبی سفاکوں نے
شیخ ومُلا ہیں سبھی قتل کے فتوؤں کے امین
مسجد و جبہ ودستار سبھی فاسق ہیں
اب کہاں جائے کوئی کس سے منصفی چاہے
عادل وحاکم وسپاہ سب منافق ہیں
خاموشی شور مچاتی ہے میری گلیوں میں
دریا وکوچہ و بازارسے حسرت کی صدا
لڑکھڑاتے ہوئے بجھتے ہوئے ہر روز دیئے
منبرومسجد ومینا رسے نفرت کی صدا
اے میر ی ارض وطن میں بھی ایک منافق تھا
منصف و حکیم وسالار و افسروں کی طرح
میرے ہونٹوں پہ بھی ایک چپ تھی جو استادہ تھی
خوف بے بس کی طرح سوختہ بختوں کی طرح
میکشوں شوخی دلداہ و حسن ومستی
میں کہ شاعر تھا جسے اپنے دکھ دریدہ تھے
میں نے دیکھا ہی نہیں شہر خون میں تر تھا
میں نہ دیکھا ہی نہیں لوگ سربریدہ تھے
اوراب یوں کہ میں خود سے بھی شرمندہ ہوں
صفتِ شعر بیاں رکھتے ہوئے چپ ہی بھرتا رہا
مجھ کو معلوم تھی اپنے قلم کی قوت بھی
اور میں تھا کہ ان اسلامیوں سے ڈرتا رہا
جاہل و مطلق و سفاک و درندو سُن لو
میں نے اپنے قلم کی چپ کو توڑ ڈالا ہے
تم نے اک خوف کی بیجی تھی فصل دل پر میرے
میں نے اس فصل کو ہاتھوں سے پھوڑ ڈالا ہے
مسلک و مذہب و ایمان پہ قتل گہی
ظلم ہے اوراسے ظلم کہا جائے گا
اور تمھیں اپنی پناہوں میں لینے والوں کو
تم درندوں سا درند ہ ہی لکھا جائے گا
جاہل مطلق و سفا ک درندو سن لو
میں سو بھی جاؤں تو میرا قلم نہیں سو تا ؛
میں نے بچپن میں فقط ایک سبق سیکھا تھا
جو ہو ظالم وہ بہادر کبھی نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔
جو ہو ظالم وہ بہادر کبھی نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔
وطن عزیز پاکستان پچھلے کئی سالوں سے دہشتگردی کے ناسور کے چُنگل میں ہے شُہدا کی مقدس روحوں کو پُرسہ دینے کے بعد اگر اپنے چار سو پھیلے ہو ئے خوف اور خطرات کے سائے دیکھتا ہوں ایک طرف سندھ کے سائیں کراچی میں قیام امن پر سیخ پا نظرآتے ہیں تودوسر ی طرف رینجرز سندھ بھر میں کرپشن ٹارگٹ کلنگ اغوابرائے تاوان کے کرتاؤں دھرتاؤں کے خلاف گھیرا تنگ کرتی ہوئی نظرآتی ہے آج قام علی شاہ صاحب کو نظرآرہا ہے کہ وفاق سند ھ پر حملہ آور ہورہاہے مجھے بتائیں جب 30 جنوری 2015 ء کو صوبہ سند ھ کے شہر شکارپور کی مرکزی مسجد کربلا معلی میں 60 نمازیوں کو خون میں نہلانے والوں کو پکڑ نا کیا لشکر کشی ہے آپکی نااہلی نا لائقی کرپشن کی وجہ سے سند ھ حکومت کے تما م ادارے ناکام نظرآتے ہیں سانحہ صفوراچورنگی ہو گیا 46 بے گناہ لو گ مارے گئے اور ان میں اکثر ستر برس تک کی عمر کے ضعیف لو گ تھے 15 جون 2014 ء کو شروع ہونے والا ضرب عضب آپریشن پاک آرمی کے مسلح انتھک محنتی نوجوانو ں کی کاوشوں کی بدولت نہا یت کارگر اور دہشتگردی کے خا تمے میں معاون ثابت ہو رہا ہے اگر ان کاروائیوں کو دیکھا جائے تو انٹیلی جنس کی بنیاد پر 13 ہزار200 آپریشن کئے گئے ان کاروائیوں میں 3 ہزار چارسو دہشتگرد ہلاک جبکہ 21 ہزار193 کو گرفتار کیا گیا دہشتگردوں کی 837 محفوظ پناہ گاہیں ختم کی گئیں ان کاروائیوں میں مجمو عی طور پر 488 سیکورٹی اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ ایک ہزار نو سو چودہ اہلکار زخمی ہوئے ملک بھر میں قائم 11 فوجی عدالتوں میں 142 مقدمات بھیجے گئے جن میں 55 پر فیصلے سنائے جا چکے 87ابھی زیر سماعت ہیں ان مقدمات میں سے 31 دہشتگردوں کو بھی سزائیں سنائی گئیں اب اگر دیکھا جائے پنجاب کی صورتحال تو پنجاب میں بھی ٹارگٹڈ کاروائیوں میں دہشتگردوں کا خاتمہ کیا گیا اسی طرح پنجاب کے نڈر مجسمہ ء شُجاعت شہید شُجاع خانزادہ کی قربانی بھی مادروطن کو محفو ظ اور پُرامن بنانے کی کڑی ہے آج ہمیں شُہدائے پشاور کی برسی پر تجدید عہد کرنا ہو گا کہ ارض وطن سے دہشتگردی کرپشن سمیت دیگر جرائم کے خاتمہ کیلئے بلا سیاسی و مذہبی لسانی صوبائی تفریق کے بھر پور آپریشن کی مکمل حمایت کریں گے پنجاب میں بھی کر پشن اور دہشتگردی کے خلاف کاروائیاں ہونی چاہئیں اور یقینناََ سندھ کا یہ اعتراض بھی مناسب اور درست ہے پنجاب یاد یگر صوبو ں میں دودھ کی نہریں نہیں بہہ رہیں جو ایک سند ھ کو پکڑا ہوا اور باقی سب کو کھلی چھوٹ دی ہوئی ہے میں آج شُہدائے پشاور اور ہنگو کے شہید اعتزاز کو سلام عقیدت پیش کرتا ہوں اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں جس نے بھی قربانی دی ہر وہ پاکستانی میرا ہیرو ہے ۔ آج وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو بھی یہ سوچنا ہے اور خداکرے کہ میاں صاحب کو اسلام آباد کے باہر کے تعلیمی ادارے ہسپتال اور انفراسٹرکچر سڑکیں نظرآئیں اور وہ راجن پو رڈیرہ غازی خاں بہاولپور رحیم یارخان لانڈھی لیاری اور سُہراب گوٹھ بنوں سوات پاراچنار کوئٹہ سوئی سبی اور بلو چستان گلگت سمیت ملک بھر کے دیگر علاقوں پر توجہ فرماسکیں اور واقعی ہم نے بدلہ لینا ہے دہشت گردوں سے اس سوچ اور فکر سے اور ہم نے شُہدائے پشاور کے خون سے وفا کرتے ہوئے علم کی شمع کو روشن رکھتے ہوئے اس قربانی کے پیچھے چھپی فکر کو آگے لا نا ہے اور حقیقت میں ہم نے دشمن کے بچوں تک علم کی روشنی پہنچانی ہے شُہدا اور لواحقین کیلئے بس یہی ہے ۔۔۔۔
آسماں تیر ی لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے