کہتے ہیں کہا ایک امریکی ریاست میں ایک بوڑھے شخص کو روٹی چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا گیا اس نے بجائے انکار کے اعتراف کیا کہ اس نے چوری ضرورکی ہے مگراس کا جواز یہ دیاکہ وہ بھوکا تھا اور قریب تھا کہ وہ مرجاتا۔ جج کہنے لگے کہ تم اعتراف کررہے ہوکہ تم چور ہو میں تمھیں دس ڈالر کی سزا سنا تا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ تمھارے پاس یہ رقم نہیں اس لئے تو تم نے روٹی چوری کی لہٰذا میں تمھاری طرف سے یہ جرمانہ اپنی جیب سے اداکرتا ہوں، مجمع پر سناٹا چھا گیا ، اور لوگ دیکھتے ہیں کہ جج اپنی جیب سے دس ڈالر نکالتا ہے اوراس بوڑھے شخص کی طرف سے یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرنے کا حکم صادرکرتا ہے اور پھر جج اپنی نشست سے کھڑا ہوتا ہے اور حاضرین کو مخاطب کرکے کہتا ہے ، میں تمام حاضرین کو دس دس ڈالر جرمانے کی سزا سنا تا ہوں اس لئے کہ تم ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں ایک غریب کو پیٹ بھرنے کیلئے روٹی چوری کرنا پڑے اس مجلس میں چارسو اسی ڈالر اکٹھے ہوئے اور جج نے وہ رقم بوڑھے مجرم کو دے دی کہا جا تا ہے کہ یہ واقعہ حقیقت پر مبنی ہے اورجب میں نے یہ پڑھا اور اس کا موازنہ اپنے چار سوپھیلے اہل دانش و فکر کے افکار کی روشنی میں کرنا چاہا تو مجھے علامہ ڈاکٹرمحمد اقبالؒ کے فلسفہ خودی میں اپنی ملت کا قیاس اپنے وسائل پر کرنے سمیت یورپ اور اہل مغرب کو ڈوبتا سورج بھی قرار دیاگیا تھا ۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
درحقیقت یہ خودی یہ غریبی یہ فقر درحقیقت مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسر ے سے کسی حدتک مشابہت رکھتے ہیں۔فقرکے بارے سیددوعالمﷺ نے فرمایا ( الفقر والفخری ) فقر میرا فخر ہے ۔فقر دراصل فاقہ قناعت اور ریاضت کا نام ہے ۔ اقبالؒ کی خودی سے اس قدر والہانہ عقیدت اور غریبی میں نام پیداکرنے کی لگن کی حقیقی تصویرجامع تعریف 7 دسمبر کی رات ایک 7 سالہ پختون بچے نے پیش کر دی۔بات کچھ یوں ہے دوستوں کیساتھ ڈنر کیلئے ریسٹورنٹ جانے کا اتفاق ہوا ۔مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہوئے ایک معصوم بچہ جس کے چہر ے پر معصومیت اور بے بسی کے آثار تھے پاؤں میں ٹوٹی ہوئی پلاسٹک کی چپل اور ایک بوسید ہ سی گرم چادر جو مائیں اکثر بچوں کو باہر نکلنے سے پہلے اس انداز سے لپیٹتی ہیں کہ کان منہ اور ناک سردہوا سے محفوظ رہیں اوڑھے ہوئے بچہ ہماری جانب تیزقدموں کیساتھ بڑھ رہا تھا ۔بچے کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر ہم وہیں رُک گئے بچہ قریب آیا اور نہایت دھیمی آواز کچھ کہااورگرم چادر ہٹا تے ہوئے لال رنگ کا کولر ہمارے آگے کردیا یہ سب اس قدر جلدی میں ہوا کہ ہم تینوں ابھی تک کچھ سمجھ نہیں پائے تھے کہ یہ بچہ کہنا کیا چاہتا ہے اور نہ ہی ہم اس کی بہت مدھم سی آوازسمجھ سکے تھے ۔چونکہ تینوں میں اسکے زیادہ قریب میں ہی تھا تو میں نے کان بچے کے قریب کرتے ہوئے پو چھا کہ وہ کیا کہہ رہاہے ۔بچہ کہہ رہا تھا کہ میرے انڈے بِک نہیں سکے رات زیادہ ہورہی ہے اس لئے میں نے گھرمیں موجود اپنے دیگر بہن بھائیوں کیلئے کھانے کیلئے بھی کچھ لینا ہے اور میر ی ماں نے پکا نا بھی ہے اس لئے اندیشہ ہے کہ دُکا نیں بند نہ ہوجائیں اور میں گھر کیلئے کچھ لیجا نہ سکوں ہم نے جلد بازی کرتے ہوئے بات کو سمجھنے کی بجائے۔پیشہ ور بھکاری سمجھتے ہوئے گداگری پر لیکچر دینا شروع کر دیا بچے کی معصومیت اور لاچاری دیکھئے کہ وہ یہ سب خاموشی کیساتھ سُنتارہا میں نے اندازاََ کہا بیٹا تم پختون تو نہیں اُس نے کہا جی میں پٹھان ہوں میں نے کہا یا ر پختون کبھی ہاتھ پھیلانے والا کام نہیں کرتا مگروہ بچہ پھر بھی دل پہ پتھر رکھ کر ہماری گفتگو سُنتارہا میرے دل میں خیا ل آیا جب کبھی انسان بھوکا ہو تاہے یا جب وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلا دیتا ہے تب وعظ ونصیحت کا وقت گُزرچکا ہوتا ہے اور کوئی بھی سمجھنے سمجھانے والی بات اثر نہیں کرتی میں نے یہ سوچتے ہوئے کہ اب خطابات کا وقت نہیں کچھ دینے کیلئے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ہمارے ایک دوست نے روکا اور کہا کہ میں دیتا ہوں اسی اثناء میں اُس نے ایک سوروپے کا نوٹ نکالتے ہوئے بچے کی طرف بڑھا دیا ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے بچے نے کو لر میں ہاتھ ڈالا اور انڈے نکالنے لگا ہم نے کہا انڈوں کی تو ہمیں ضرورت نہیں ان کا کیا کرنا جب ہم نے یہ بات کی تو اس نے ایک سوروپے کا نوٹ شُکریے کیساتھ ہماری طرف بڑھاتے ہوئے کہا : صاحب ہم غریب ضرور ہیں مگر مانگنا بُری بات ہے ہم بھیک نہیں مانگتے آپ کایہی احسان کافی ہے کہ آپ مجھ سے انڈے لے لو ایسے رقم نہیں لے سکتا یقین کریں ہم سب سکتے میں آگئے کہ یار پختون واقعی کبھی بھیک نہیں مانگتا اور خوددار ہوتا ہے ہم بھی یہ سو چنے پر مجبورہو گئے کہ آخر اس مسئلے کا حل کیسے نکا لا جائے فیصلہ یہ ہوا کہ ریسٹورنٹ کے باہر موجود عملے کو اور راہگیروں کو انڈے بانٹ دیئے جائیں بچے کایہ سُننا تھا اور دیوانہ وار بھاگم بھاگ بچے نے انڈے بانٹنا شروع کر دیئے ۔تاحدنگاہ پھیلی ہوئی دھند دسمبر کی سردرات سردی سے ٹھٹھر کرتے وجودکیساتھ پاؤں میں پلاسٹک کی چپل پہنے ہاتھ میں لال کولر تھامے موسمی سختیوں سے بے پرواہ روٹی کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگتے معصوم بچے کی معصومیت اور بے کسی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رورہاتھااور بار بارایک ہی سوال ذہن میں آرہاتھا کہ آج بدلہ ہے پنجاب اور بدلیں گے پاکستان کا نعرہ لگانے والے کدھر ہیں کیا کوئی ایک دانش سکول اس بچے کو داخلہ نہیں دے سکتا کیا پیلی ٹیکسی سستی روٹی اور میٹرو اورنج لائن جیسی عیاشی سے اس بچے کو دو وقت کی روٹی دے سکتی ہے کیا یہ معصو م بچہ اپنی بیمارماں کیلئے دوالے کے جا سکتا ہے مجھے بتائیں اس ملک پر تین تین بار حکمران رہنے والوں نے غریب کیلئے کیا کارنامہ سر انجام دیا آج جب میں بچے کی زبان سے لفظ پختون سُن رہا تھا تو مجھے نئے خیبر پختونخواہ کی جھلک بھی نظرآرہی تھی آپ درخت لگاتے رہیں ایک لاکھ ایک کروڑ ایک ارب غریب بھوک سے مرتا رہے علاج کی سہولت نہ ہو سکولوں میں تعلیم نہ ہو ۔پنجاب میں آج پینے کا پانی تک صاف نہیں مل رہا اور یہ لوگ اعلیٰ طرزِحکمرانی کی بات کرتے ہیں ہم کس طرف جارہے ہیں آج ہم صبح شام اہل مغرب پر شب وطعن کرتے ہیں اور وہ اہل مغرب ہی ہیں جو ایک بچی کی پیدائش پر اپنے ننانوے فیصد اثاثے رفاح عامہ کیلئے وقف کر رہا ہے خود کو اسلامی جمہوریہ پاکستا ن کہنے والوں کیلئے یہ بھی لمحہ فکریہ ہے ہم نے صرف اپنی جیبیں بھریں جائیدادیں بنائیں اور ایک مارک ازبرگ جس نے اپنی بیٹی کی پیدائش پر جو صدقہ دیا صرف وہ خیرات اور صدقہ پاکستان کا اسی فیصد قرضہ اُتارسکتا ہے جبکہ ہمارے ہاں انسانیت کے آنسو پو نجھنے کیلئے کوئی وقت نہیں ہم صرف تَلو ر کا شکارکرسکتے ہیں ہم صرف اونٹوں کی دوڑیں لگواسکتے ہیں یا پھر ہم بیس بیس شادیاں کرواکے پچاس پچاس بچے پیداکرسکتے ہیں جو یقینناََ ہماری دنیا میں پست خیالی اور تھرڈٖورلڈکنٹری قراردئے جانے کیلئے کافی ہے ۔ اورپھر ہم اُسی مغرب کی تقلید میں کبھی عالمی انسانی حقوق ڈے مناتے ہیں کبھی ہم فادر ڈے کے نام پہ کھلواڑ کھیلتے ہیں کبھی ہماری نیم مغربی این جی اوز مدرڈے کے نام پر دکانداری چمکاتی ہے مگر میرا سوال فقط یہی ہے کہ کیا امت مسلمہ میں یا پاکستان میں وہ مائیں بانجھ ہو گئیں جو مارک ازبرگ جنتی ہیں جو بِل گیٹس جنتی ہیں آپ دولت کے محل تعمیر کرتے رہیں کبھی سرائے محل کبھی سوئس بینک اور پو ری دنیا میں شوگر مِلیں بھی لگا لیں مگر یادرکھنا کفن کی جیبیں نہیں ہوتیں اور آپ کو خالی ہاتھ جانا ہوتا ہے اور یقیننا آپ کے بدن پر قیمتی لباس سونے کی گھڑی اور سونے کے کف لنکس اورچَین بھی اتار لی جائے اور آپ جائیں گے اُسی کوَرے کفن میں جس میں فُٹ پاتھ پہ مرنے والا لاوارث دفنا یا جائے گا ۔